جب ججز ہماری حدود میں تجاوز کریں گے تو آواز اٹھانا ہمارا حق بنتا ہے، وزیر دفاع

0
138

اسلام آباد (این این آئی) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ جب ججز ہماری حدود میں تجاوز کرینگے تو آواز اٹھانا ہماراحق ہے ، عدلیہ نے آئین کو ری رائٹ کرکے اپنے اختیار سے تجاوز کیا، نواز شریف کیساتھ جس طرح زیادتی ہوئی، انہیں تاحیات نااہل کیا گیا، کون سا ایسا ادارہ ہے جس کے کسی فرد کو کوئی اور ادارہ نااہل کردے، یہ کہاں کی مثال، کہاں کا قانون ہے؟پوری سپریم کورٹ بیٹھ کر مسئلے کا حل تلاش کرے ،معاملہ فل کورٹ کا متقاضی ہے ، پانامہ سے شروعات کریں ،مسلسل بحران میں رہنے کی وجہ سے ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے،پاکستان بنانے والے عمران خان کی طرح اسپانسرڈ لوگ نہیں تھے، جیل بھرو تحریک اب فلاپ ہوچکی ہے، اب ڈوب مرو تحریک چلائیں۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ پوری سپریم کورٹ بیٹھ کر اس مسئلے کا حل تلاش کرے اور ایسا حل نکالے کہ جو نہ صرف ہمارے لیے تریاق ہو بلکہ جو مرض ہمیں دہائیوں سے لاحق ہیں ان کا بھی بندوبست کرلیا جائے۔انہوںنے کہاکہ اس وقت سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کی سماعت ہورہی ہے، کچھ سوالات مرتب کیے گئے ہیں جن کے جوابات سپریم کورٹ میں ڈھونڈے اور دئیے جائیں گے جس میں سیاسی جماعتوں، بار کونسلز سمیت متعدد فریقین ہیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ گزشتہ روز شروع ہونے والا مقدمہ نہایت اہمیت کا حامل ہے جس کے مثبت و منفی اثرات موجودہ نہیں بلکہ مستقبل میں بھی ملک کے سیاسی اور عمومی حالات پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ خوش آئند بات ہے کہ 9 ججز کا بینچ تشکیل دیا گیا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ معاملہ فل کورٹ کا متقاضی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک شکایت رہتی ہے کہ پارلیمنٹرینز یا سیاسی کارکنان، عدلیہ کا نام لے کر تنقید کرتے ہیں، میں ان کا نام نہیں لیتا جن پر تنقید ہوتی ہے لیکن ان کا نام لیتا ہوں جن پر تنقید نہیں ہوتی ہے۔انہوں نے سوال کیا کہ اعلیٰ عدلیہ خود پوچھے کہ جسٹس منیر پر تنقید ہوتی ہے لیکن جسٹس کارلینیئس پر کیوں نہیں ہوتی، جسٹس ارشاد حسن خان، جسٹس ریاض شیخ پر تنقید ہوتی ہے لیکن جسٹس سعید الزماں صدیقی، ناظم صدیقی پرتنقید کیوں نہیں کی جاتی۔وزیر دفاع نے کہا کہ ماضی قریب میں ججز کا نام لے کر تنقید کی جاتی ہے، پاناما کے ججز پر تنقید کی جاتی ہے جب وہ اپنی کرسیوں پر بیٹھ کر ہماری حدود میں تجاوز کریں گے تو ہمارا بھی حق بنتا ہے کہ ہم آواز اٹھائیں کہ انہوں نے اپنی کرسیوں کے تقاضے پورے نہیں کیے، جن میں جسٹس ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ کا نام ہے لیکن ناصر الملک اور تصدق جیلانی کا نام نہیں آتا