اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے مالی سال2023-24کا145 کھرب کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جس میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے مجموعی طور پر 1150 ارب روپے ،ملکی دفاع کیلئے 1804 ارب روپے ،سول انتظامیہ کے اخرجات کیلئے 714ارب روپے رکھے گئے ہیں،ایف بی آر کے ٹیکس ریونیو کا تخمینہ 9200 ارب روپے لگایا گیا ہے،وفاقی نان ٹیکس محصولات 2963 ارب روپے کے ہوں گے، وفاقی حکومت کی کل آمدن68 کھرب 87 ارب روپے ہوگی،اگلے مالی سال کیلئے جی ڈی پی کی شرح نمو کا ہدف 3.5 فیصد،گریڈ 16-1 اور 22-17 کے سرکاری ملازمین کے لیے بالترتیب 35 اور 30 فیصد اضافہ ،کم از کم اجرت 32ہزار روپے ،ای او بی آئی کے ذریعے پنشن حاصل کرنے والے پنشنرز کی کم سے کم پنشن کو 8500 روپے سے بڑھا کر 10ہزار روپے کرنے کی تجویز ،پرائم منسٹر یوتھ لون کیلئے 10 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے ،ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے کرنٹ اخراجات میں 65 ارب اور ترقیاتی اخراجات کی مد میں 70 ارب روپے مختص،بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 260 ارب سے بڑھا کر 400 ارب کردیا گیا،معیاری بیجوں کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے ان کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم،کان کنی کیلئے درکار مشینری، رائس مل کی مشینری اور مشین کے آلات کیلئے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ اور 50 ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمی توانائی پر منتقل کرنے کیلئے 30 ارب روپے مختص کر نے کی تجویز دی گئی ،انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اس سے متعلقہ سروسز کے برآمد کنندگان کیلئے آئی ٹی آلات کی ڈیوٹی سے مستثنیٰ درآمد کی اجازت دیکر ان کی برآمدی آمدنی کے ایک فیصد کی قیمت کے برابر کرنے ،سابقہ فاٹا کے علاقوں سے درآمد کی گئی مشینری اور آلات پر چھوٹ میں جون 2024 تک توسیع کی تجویز دے دی گئی ،معاشرے کے غریب طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے استعمال شدہ (سیکنڈ ہینڈ)کپڑوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ،انفارمیشن ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کیلئے اس سے منسلک آلات سے ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے اور فلیٹ پینلز، مانیٹرز اور پروجیکٹرز کے پارٹس پر ریگولیٹری ڈیوٹی کے خاتمے کی تجویز ،کمرشل امپورٹرز درآمد کنندگان کے لیے اشیا کی درآمد پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں 0.5فیصد اضافہ کیا گیا ،ہیوی کمرشل وہیکلز کے نان لوکلائزڈ (سی کے ڈی)پر کسٹم ڈیوٹی کو 10فیصد سے کم کر کے فیصد کرنے کی تجویز ،بینک سے 50 ہزار نکالنے والے نان فائلر کیلئے ٹیکس میں اضافہ ،ترسیلات زر کے ذریعے غیر منقولہ جائیداد خریدنے پر 2 فیصد ٹیکس ختم کر نے کی تجویز دی گئی ہے ،صحافیوں کی ہیلتھ انشورنس کیلئے ایک ارب روپے مختص ،ڈیبٹ/کریڈٹ یا پری پیڈ کارڈز کے ذریعے نان،ریزیڈنٹ کو ادائیگی پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں ایک فیصد سے 5 فیصد تک اضافے اورکیفے، فوڈ پارلر، وغیرہ اور اسی طرح تیار/پکا ہوا کھانا فراہم کرنے والی دیگر آؤٹ لیٹس وغیرہ میں ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈز، موبائل والٹ یا کیو آر اسکیننگ کے ذریعے ادائیگی کی صورت میں 5 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویزپیش کی گئی ہے،مختلف سیکٹرز میں ٹیکس کی شرح میں اضافہ کے باعث ٹیٹرا پیک دودھ، پیکٹ کی دہی، ڈبے میں بند مکھن اور پنیر مہنگے ہوں گے، ٹن پیک مچھلی، ڈبے میں بند مرغی کا گوشت اور انڈوں کے پیکٹ کی قیمت بڑھ جائے گی جن پر18 فیصد ٹیکس لگ گیا،برانڈڈ کپڑے مہنگے ہوں گے جن پر جی ایس ٹی 12 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کر دیا گیا، آئندہ مالی سال 2023-24 کے بجٹ میں ایشیا میں بننے والی پرانی اور استعمال شدہ 1300 سی سی سے بڑی گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی اور ٹیکسز کی حد بندی ختم کرنے کی تجویز ہے ،ڈیوٹی اور ٹیکسز کی حد بندی ختم ہونے کے بعد گاڑیاں مہنگی ہونے کا امکان ہے جبکہ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہاہے کہ رواں سال کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جارہا ہے ،حکومت کی کوشش ہے ملک میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے،روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں اور کاروبار میں آسانیاں لائی جائیں،آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کر لیا ہے، باقاعدگی سے مذاکرات جاری ہیں، ہماری ہرممکن کوشش ہے جلد ایس ایل اے پر دستخط ہوں اور نواں جائزہ مکمل ہوجائے،نئے گھروں اور عمارتوں کی تعمیر پر مراعات دینے کیلئے آئندہ تین سال تک کنسٹرکشن انٹرپرائز کی کاروباری آمدن پر ٹیکس میں 10 فیصد یا 50 لاکھ روپے دونوں میں سے جو رقم کم ہو، رعایت دی جائے گی۔جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت ہوا جس میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے آئندہ مالی سال 2023-24کا وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے کہاکہ بجٹ پیش کرنے کا اعزاز حاصل کرنے پر خدا کا شکر گزار ہوں۔ انہوںنے مالی سال 24ـ2023 کے بجٹ کے اعداد و شمار پیش کرنے سے پہلے 2017 میں نواز شریف کی حکومت اور 2022 میں پی ٹی آئی کی نااہل حکومت کے بجٹ کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے مالی سال 17ـ2016 میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو 6.1 فیصد تک پہنچ چکی تھی، مہنگائی 4 فیصد تھی، غذائی اشیا کی مہنگائی صرف 2 فیصد تھی، پالیسی ریٹ ساڑھے 5 فیصد، اسٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا میں نمبر ون اور پوری دنیا میں پانچویں نمبر پر تھی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستانی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن تھی اور پاکستان 2020 تک جی-20 ممالک میں شامل ہونے والا تھا، پاکستانی کرنسی مستحکم اور زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر تھے، بجلی کے نئے منصوبوں سے 12-16 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ سے نجات مل چکی تھی، انفرااسٹرکچر، روزگار کے مواقع اور آسان قرضوں جیسے عوام دوست منصوبوں کی تکمیل کی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جاچکا تھا، ملک میں امن و امان اور سیاسی استحکام تھا، ان حالات میں آنا فانا سازشوں کے جال بچھا دیے گئے، اگست 2018 میں ایک سلیکٹڈ حکومت وجود میں آئی، اس سلیکٹڈ حکومت کی ناکام معاشی کارکردگی کے سبب پاکستان 24ویں بڑی معیشت کے درجے سے گر کر 47ویں نمبر پر آگیا۔انہوںنے کہاکہ آج پاکستان تاریخ کے مشکل ترین مراحل سے گزر رہا ہے، خراب معاشی صورتحال کی ذمہ دار پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت ہے، اس لیے مالی سال 22-2021 تک کی معاشی صورتحال کا ایک جائزہ ایوان کے سامنے رکھوں گا۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی غلط معاشی حکمت عملی کے باعث کرنٹ اکانٹ خسارہ 17.5 ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے تھے، آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل پاکستان کے لیے اہم تھی لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اس صورتحال کو جان بوجھ کر خراب کیا۔اسحق ڈار نے کہا کہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں سبسڈی دی، ایسے اقدامات اٹھائے جو آئی ایم ایف شرائط کی صریحا خلاف ورزی تھی، سابقہ حکومت کے وزیر خزانہ نے 2 صوبائی وزارئے خزانہ کو فون کر کے آئی ایم ایف پروگرام سبوتاژ کروانے کی کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ ان اقدامات سے نئی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھائی گئیں جس سے نہ صرف مالی خسارے میں اضافہ کیا بلکہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے تعلقات کو بھی نقصان پہنچایا۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کی معاشی حکمت عملی کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت مالی خسارے میں خطرناک حد تک اضافہ تھا، مالی سال 22-2021 کا خسارہ جی ڈی پی کے 7.89 فیصد کے برابر ہے جبکہ پرائمری خسارہ جی ڈی پی کے 3.1 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ جون 2018 میں پاکستان کا قرضہ تقریبا 250 کھرب تھا، پی ٹی آئی کی معاشی بے انتظامی کے سبب یہ قرض مالی سال 22-2021 میں 490 کھرب تک پہنچ گیا، 4 سالہ دور میں اتنا قرض لیا گیا جو 1947 سے 2018 تک لیے جانے والے قرض کا 96 فیصد تھا۔اسحق ڈار نے بتایا کہ اسی طرح قرضے اور واجبات اسی عرصے میں 100 فیصد سے بڑھ کر 300 کھرب سے 600 کھرب روپے تک پہنچ گئے، جون 2018 میں غیر ملکی قرضے اور واجبات 95 ارب ڈالر تھے جو کہ جون 2022 تک 130ارب ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن)کی حکومت کو 2013 میں 503 ارب روپے کا گردشی قرضہ ورثے میں ملا جو 208 تک بڑھ کر 1148 ارب روپے پر پہنچ گیا، پی ٹی آئی کے 4 سالہ دور میں یہ 1319 ارب روپے کے اضافے کے ساتھ 2467 ارب روپے پر پہنچ گیا۔انہوںنے کہاکہ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے خسارے کو کم کرنے کے لیے کفایت شعاری سے کام لیا اور اخراجات میں کمی گئی، ان اقدامات کے نتیجے میں بجٹ خسارہ پچھلے مالی سال میں جی ڈی پی کے 7.9 فیصد سے کم ہوکر رواں مالی سال میں جی ڈی پی کا 7.0 فیصد ہوگیا، بنیادی خسارے کو صرف ایک سال کی مدت کے دوران جی ڈی پی کے 3.1 فیصد سے کم کرکے 0.5 فیصد پر لایا گیا۔انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کو ایک سال کے دوران کئی اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، سیلاب کے سبب معاشی نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا ہے۔وفاقی وزیر نے کہاکہ اقوام متحدہ کے ادارے ”ایف اے او” کے تخمینے کے مطابق سال 2021 کے برعکس سال 2022 کے دوران عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں 14.3 فیصد کا اضافہ ہوا، تیل، گندم، دالیں، خوردنی تیل اور کھاد کی ہمیں زرمبادلہ میں ادائیگی کرنا پڑی جو مہنگائی میں اضافے کا باعث بنا، یوکرین جنگ، عالمی سطح پر تیل و گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور مغربی ممالک میں شرح سود میں اضافے نے ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ کیا۔اسحق ڈار نے کہا کہ موجودہ حکومت کے مشکل فیصلوں کی وجہ سے ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں گرواٹ کو کم کیا گیا ہے، حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کر لیا ہے، باقاعدگی سے مذاکرات جاری ہیں، ہماری ہر ممکن کوشش ہے کہ جلد ایس ایل اے پر دستخط ہوں اور نواں جائزہ مکمل ہوجائے۔انہوں نے کہا کہ مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے چند ماہ قبل بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دیے جانے والے کیش ٹرانسفر میں 25 فیصد تک اضافہ کردیا ہے، بجٹ کو 260 ارب سے بڑھا کر 400 ارب کردیا گیا ہے، اس کا اطلاق یکم جنوری 2023 سے ہوچکا ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ مفت آٹے کی تقسیم کی گئی، سستی اشیا کی فراہمی کیلئے 26ارب روپے کی سبسڈی دی گئی، گزشتہ ایک ماہ میں حکومت نے 2 مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کی، امید ہے اس کے نتیجے میں مہنگائی میں کمی آئے گی۔انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال اندرونی اور بیرونی مشکلات کے سبب بڑی صنعتوں کی پیداوار میں منفی نمو کا رجحان رہا، اس کی بڑی وجہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا رجحان تھا، جس کے سبب خام مال کی دستیابی میں مشکلات پیدا ہوئیں، ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خام مال کو ترجیحی بنیاد پر ایل سی کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے، حکومت اگلے مالی سال اس رجحان کو ریورس کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ صنعتی شعبے پر آئندہ سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، اسی طرح عالمی منڈیوں می قیمتوں میں گراوٹ، ترقی یافتہ ممالک میں انوینٹری میں کمی اور ملک میں خام مال کی بہتر دستیابی کی وجہ سے ایل ایس ایم میں بہتری آئے گی۔اسحق ڈار نے کہا کہ اب میں آپ کو بجٹ مالی سال 24-2023 کی عمومی سمت کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں، معیشت میں بہتری کی سمت کے باوجود ابھی بھی چیلنجز کا سامنا ہے،
مقبول خبریں
26ویں آئینی ترمیم پاس کرنے کیلئے اربوں روپے بانٹے گئے،اسد قیصر
صوابی(این این آئی)سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہاہے کہ 26ویں آئینی ترمیم پاس کرنے کیلئے اربوں روپے بانٹے گئے۔صوابی میں کارکنوں سے...
بشریٰ بی بی کیخلاف ملتان، لیہ، گوجرانوالہ میں مقدمہ درج
اسلام آباد(این این آئی)بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف مختلف شہروں میں مقدمے درج کر لیے گئے۔پولیس کے مطابق...
24نومبر کا احتجاج رکوانے کیلئے محسن نقوی کا چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر...
اسلام آباد(این این آئی)اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کی روشنی میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر سے...
ٹرمپ کا 2020 کے انتخابات کی جانچ پڑتال کیلیے تحقیقاتی ٹیموں کو اکٹھا کرنے...
واشنگٹن(این این آئی )امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ٹرمپ 2020 کے انتخابات کی جانچ پڑتال کے لیے تحقیقاتی ٹیموں کو اکٹھا کرنے کا...
پاکستان اسٹاک ایکسچینج: کاروباری ہفتے میں بلند ترین سطح 99 ہزار 623 رہی
کراچی (این این آئی)پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے کاروباری ہفتے کے اختتام پر اپ ڈیٹس سامنے آ گئیں۔پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری ہفتے میں مثبت...