معاشی بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے ، استحکام آ گیا ہے، اسحق ڈارکی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس

0
120

اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر خزانہ اسحق نے کہا ہے کہ معاشی بحران بہت شدید تھا جس سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور استحکام آ گیا ہے، پلان بی پر پبلک میں بات نہیں ہوسکتی، پاکستان ڈیفالٹ نہیں کریگا، پاکستان کی آبادی کی شرح الارمنگ ہے، بڑھتی آبادی ترقی کی کوششوں کو کھا جائیگی، بجٹ کو حتمی شکل دینے سے پہلے کاروباری طبقے کے تحفظات دور کریں گے،بجٹ کے بعد تجاویز کو ڈیل کرنے کیلئے کمیٹی بنائی جارہی ہے، پرائیوٹ پبلک سیکٹرکو لیکر چلنے سے ملک کا پہیہ چلے گا،نئے مالی سال میں 2963 ارب روپے کا نان ٹیکس ریونیو اکٹھا ہو جائیگا ، تاریخ میں پہلی بار پی ایس ڈی پی کیلئے 1150ارب روپے کی بڑی رقم مختص کی گئی ہے، پی ایس ڈی پی پر شفاف طریقے سے عمل کیا تو نظام بہتر ہوجائیگا،ترقیاتی بجٹ پردرست عمل ہو تو شرح نمو کا ہدف حاصل کرلینگے،50 ہزار ٹیوب ویلز کو سولر پرکرنے کیلئے 30 ارب روپے رکھے ہیں،دودھ پر کوئی سیلز ٹیکس نہیں لگا،بیواؤں کے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کاقرض حکومت اداکریگی، 1074ارب روپے کی سبسڈی میں سے 900 ارب پاور سیکٹرکے ہیں،یورپین یونین جی ایس پی پلس میں توسیع دے گا،جنرل الیکشن میں ایک سال توسیع کی کا کوئی بیان حکومت نے نہیں دیا۔ہفتہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہاکہ اکثر ہم ایسا کرتے رہے ہیں کہ بجٹ پیش کرنے کے بعد ایف بی آر میں دو کمیٹیاں بناتے ہیں، ایک کاروباری معاملات کے حوالے سے ہوتی ہے اور دوسرے تکنیکی امور کے بارے میں ہوتی ہے، چیئرمین ایف بی آر مجھ سے منظوری لے لیں گے جس کے بعد ہم اس کو بنا دیں گے۔انہوںنے کہاکہ اگر ان دونوں چیزوں میں کسی کو شکایات ہیں تو وہ ان کمیٹیوں سے رجوع کر سکتا ہے تاکہ ہم ان کے تحفظات کو بھی دور کر سکیں۔انہوں نے کہا کہ مجموعی وفاقی ریونیو 12ہزار 163ارب کا اس بجٹ میں پیش کیا گیا، ایف بی آر کی کلیکشن 9ہزار 200 اور نان ٹیکس ریونیو 2 ہزار 963 ہے۔اسحٰق ڈار نے کہا کہ اس میں اسٹیٹ بینک کا منافع 1113 ارب روپے ہے، صوبوں کو منتقلی کے بعد مجموعی وفاقی ریونیو 6 ہزار 887 ارب روپے ہے جبکہ اس ریونیو کے مقابلے میں کْل خرچہ 14ہزار 463 ہے، اس میں کرنٹ خرچہ 13ہزار 320 ہے جس میں مارک اپ کی 7ہزار 300 کی بڑی رقم ہے، دفاع کے 1804 ارب روپے ہیں، ایمرجنسی اور دیگر کے لیے 200ارب ہیں، گرانٹس کے لیے 1464 ارب روپے ہیں، سبسڈیز 1074ارب کی ہیں۔انہوںنے کہاکہ وفاقی خسارہ 7ہزار 573 (منفی 7.2فیصد) ہے اور صوبائی سرپلس کے بعد 6ہزار 923 ہے جو 6.54 فیصد بنتا ہے، مجموعی پرائمری 380ارب روپے رکھا گیا ہے اور جی ڈی پی کا 0.4فیصد حصہ بنتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب میں نے 18ـ2017 کا بجٹ پیش کیا تھا تو پی ایس ڈی پی ایک ہزار ٹریلین تھا اور جو پچھلے سال 567ارب تھا، اس کے بعد پہلی مرتبہ ایک نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے اور ہم نے 1150ارب روپے اس مرتبہ مختص کیے ہیں۔ترقیاتی منصوبوں کیلئے مختص کی گئی رقم کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں اہم انفرااسٹرکچر کیلئے 491.3ارب روپے ہے، سماجی شعبے کیلئے 241.2ارب روپے ہے، ہائر ایجوکیشن کے لیے 82ارب روپے ہے، ایس ڈی جی کے 90ارب روپے ہیں، دیگر سماجی شعبے کے لیے 46ارب روپے ہیں، ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن کیلئے 263ارب روپے ہیں، پانی کیلئے 100ارب روپے ہیں، فزیکل پلاننگ اور ہاؤسنگ کیلئے 42ارب روپے رکھے گئے ہیں۔انہوںنے کہاکہ اگر ہم نے پی ایس ڈی پی پر صحیح طریقے سے عمل کر لیا اور اس کو شفافیت کے ساتھ اس میں سرمایہ کاری کی تو ہم اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے اور ساڑھے تین فیصد کی شرح نمو حاصل کر سکیں گے اور آئی ایم ایف نے بھی ہماری شرح نمو کا یہی تخمینہ لگایا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے مالی سال کے میکرو اکنامک اشاریوں کی بات کی جائے تو قومی ادارہ شماریات کے مطابق مہنگائی کی شرح 21فیصد رہنے کا امکان ہے، جی ڈی پی کے مقابلے میں ریونیو کا تخمینہ 8.7فیصد لگایا گیا ہے، مجموعی خسارہ 6.54فیصد ہے، پرائمری بیلنس 0.4فیصد ہے، جی ڈی پی کے مقابلے میں عوامی قرضہ 66.5فیصد ہے۔انہوںنے کہاکہ یہ قرضہ بہت اہمیت کا حامل ہے جسے ہم نے 2017 میں 63فیصد پر چھوڑا تھا، اس کے بعد یہ 74 کے قریب پہنچا تھا اور اس کے بعد یہ دوبارہ 66فیصد پر واپس آرہا ہے، تو یہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔اسحٰق ڈار نے کہا کہ ہم نے شرح سود کو جون 2018 میں شرح سود کو ساڑھے 6 فیصد پر چھوڑا تھا جو اب 21 فیصد پر ہے، ایک طرف قرضے دوگنے ہو گئے اور دوسری طرف شرح سود بھی ساڑھے 3 گنا بڑھ گیا ہے، اسی وجہ سے قرضوں کی ادائیگی کی رقم اس سال ہمارے بجٹ میں سب سے زیادہ ہے، اللہ کرے کہ ہم اسے کم کر سکیں اور یہ حقیقی نمبر پر آئے کیونکہ ہر ایک فیصد سے ہمیں 250 سے 300 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ہم نے روایتی بجٹ سے ہٹ کر بنایا ہے، ہمیں کہیں سے آغاز کرنا ہو گا، جب شرح نمو ہو گی، معیشت کا پہیہ چلے گا، لوگوں کو روزگار ملے گا تو میکرو اکنامک اشاریے ٹھیک ہونا شروع ہوں گے اور مہنگائی کم ہونا شروع ہو گی-