سرینگر(این این آئی) نریندر مودی کی زیر قیادت ہندو توا بھارتی حکومت کی طرف سے 5 اگست 2019 کو بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے جانے کے بعد سے علاقے میں بے گناہ نوجوانوں کے ماورائے عدالت قتل، بلاجواز گرفتاریوں، تشدد ، ٹوڑ پھوڑ اور املاک ضبط کرنے کی بہیمانہ کارروائیوں میں خطرناک حد تک تیزی آئی ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے شعبہ تحقیق کی طرف سے مودی حکومت کے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام کو چار برس مکمل ہونے پر جاری کی گئی ،ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوجیوں نے اس عرصے کے دوران 16 خواتین سمیت 792 کشمیریوں کو شہید کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ سینئر حریت رہنما محمد اشرف صحرائی اور الطاف احمد شاہ ان درجنوں کشمیریوں میں شامل ہیں جو بھارتی پولیس کی حراست میں شہید ہوئے،بھارتی فوجیوں، پیرا ملٹری اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے پرامن مظاہرین اور سوگواروں پر گولیوں، پیلٹوں اور آنسو گیس کے گولوں سمیت وحشیانہ طاقت کے استعمال کی وجہ سے کم از کم 2ہزار3سو69 افراد شدید زخمی ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ زیادہ ترلوگوں کو جعلی مقابلوں اور دوران حراست شہید کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بہت سے نوجوانوں کو ان کے گھروں سے اٹھایا گیا اور پھر انہیں مجاہدین یا مجاہد تنظیموں کے کارندے قرار دیکر شہید کیا گیا۔ کے ایم ایس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ گرفتار نوجوانوں میں سے بیشتر پر پبلک سیفٹی ایکٹ اور غیر قانونی سرگرمیاں کی روک تھا کے کالے قانون یو اے پی اے ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔رپورٹ میں کہا گیاکہ5 اگست 2019 سے ہونے والی ان شہادتوں کے نتیجے میں 52 خواتین بیوہ اور 128 بچے یتیم ہوئے ہیں، فوجیوں نے اس عرصے میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران 1ہزار1سو6 سے زائد مکانات اور دیگر عمارتوں کو نقصان پہنچایا ، 129 خواتین کی بے حرمتی کی جبکہ 21ہزار2سو63 افراد کو گرفتار کیا جن میں عمر رسیدہ خواتین اور نصف درجن لڑکیاں شامل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد سے کشمیری معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر بدحال ہوگئے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 5اگست 2019کے غیر قانونی بھارتی اقدا م کا اصل مقصد مقبوضہ علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت کو ا قلیت میں بدلنا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کو اس کے باشندوں کے لیے ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے، حریت رہنماؤں ، کارکنوں، مذہبی و سیاسی رہنماؤں، تاجروں ،سول سوسائٹی کے اراکین سمیت ہزاروں کشمیریوں کو 5 اگست 2019 کے بعد یا اس سے پہلے گرفتار کیا گیا اور وہ اب بھی مقبوضہ علاقے اور بھارتی جیلوں میں قید ہیں ۔ نظر بندوں میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، آسیہ اندرابی، نعیم احمد خان، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین، ایاز محمد اکبر، پیر سیف اللہ، راجہ معراج الدین کلوال، شاہد الاسلام، فاروق احمد ڈار، سید شاہد یوسف، سید شکیل یوسف، مظفر احمد ڈار، غلام محمد بٹ، مشتاق الاسلام، امیر حمزہ، مولوی بشیر عرفانی، بلال صدیقی، ظفر اکبر بٹ، محمد یوسف میر، محمد یوسف فلاحی، محمد رفیق گنائی، حیات احمد بٹ، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، غلام قادر بٹ، محمد شفیع شریعتی، ڈاکٹر حمید فیاض، مولانا عبدالمجید ڈار، مولانا مشتاق ویری، عبدالرشید داؤدی، مولانا عبدالواحد کشتواری، شوکت حکیم، مہراج الدین نندہ، وحید احمد گوجری، محمود ٹوپے والا، فیروز عادل زرگر، دائو زرگر، نور محمد فیاض، انجینئر رشید، انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز، صحافی آصف سلطان ،فہد شاہ اور دیگر شامل ہیں۔کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق بدستور سرینگر میں گھر میں نظر بند ہیں۔ کالے قوانین پی ایس اے اور یو اے پی اے کے تحت 4ہزار سے زیادہ لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ مقبوضہ جموںوکشمیرمیں آزادی صحافت مسلسل خطرے کی زد میں ہے ، صحافیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے اور بلا جواز طور پر حراست میں لیا جاتا ہے ۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ بھارت مقبوضہ جموںوکشمیر میں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے وحشیانہ حربے استعمال کر رہا ہے، مودی حکومت مقبوضہ علاقے کی مسلم اکثریتی حیثیت کو تبدیل کرنے میں مصروف ہے اور اس نے اس مذموم مقصد کے لیے ہزاروں بھارتی ہندوئوں کو مقبوضہ علاقے کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے ہیں۔ آر ایس ایس کی حمایت یافتہ مودی حکومت مقبوضہ علاقے میں اپنے ہندوتوا نظریہ کو آگے بڑھا رہی ہے۔ آزادی کے حامی رہنماؤں کی جائیدادیں ضبط کی جا رہی ہیں تاکہ انہیں اپنے منصفانہ مقصد سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا جا سکے۔ ہندوؤں کو زیادہ سیٹیں دینے کے لیے مقبوضہ جموںوکشمیرمیں نئی حلقہ بندیاں کی گئی ہیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بدترین بھارتی مظالم کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو دبانے میں ناکام رہے ہیں اور وہ حق خودارادیت کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔ بھارت کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ وہ طاقت کے بل پر کشمیریوں کو ہرگز خاموش نہیں کرسکتا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بی جے پی حکومت کو مقبوضہ علاقے میں انسانیت کے خلاف جرائم کی سزا ملنی چاہیے، عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ علاقے میں بھارت کے وحشیانہ اقدامات کا نوٹس لے اور اسے مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر مجبور کرے۔