کاروباری شخصیات کیخلاف نیب قانون کا غلط استعمال کیا گیا،چیف جسٹس

0
113

اسلام آباد(این این آئی) سپریم کورٹ آف پاکستان میں سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر ریمارکس میں کہا ہے کہ نیب قانون کا کاروباری شخصیات کے خلاف غلط استعمال کیا گیا،نیب ترامیم کے بعد بین الاقوامی قانونی مدد کے ذریعے ملنے والے شواہد قابلِ قبول نہیں رہے۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی جس میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ شامل ہیں۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دینے شروع کیے تو چیف جسٹس پاکستان نے ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ خواجہ حارث صاحب اجازت ہو تو مخدوم علی خان سے ایک بات پوچھ لوں؟چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ گزشتہ روز ہم نے ترمیمی قانون میں ایک اور چیز دیکھی، باہمی قانونی تعاون کے تحت حاصل شواہد کی حیثیت ختم کر دی گئی ہے، اب نیب کو خود وہاں سروسز لینا ہوں گی جو مہنگی پڑیں گی، آپ نے کہا تھا کہ باہمی قانونی تعاون کے علاوہ بھی بیرونِ ملک سے جائیدادوں کی رپورٹ آئی ہے، قانون میں تو اس ذریعے سے حاصل شواہد قابلِ قبول ہی نہیں۔دورانِ سماعت نیب ترامیم کے بعد ریفرنسز واپس ہونے سے متعلق رپورٹ جمع کرا دی گئی،نیب ترامیم سے رواں سال مستفید افراد کی رپورٹ سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرا ئی گئی ہے۔نیب کی رپورٹ کے مطابق رواں سال 30 اگست تک 12 ریفرنسز نیب عدالتوں سے منتقل ہوئے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ سابق صدر آصف زرداری کے خلاف پارک لین ریفرنس احتساب عدالت نے ترامیم کے بعد واپس کر دیا۔نیب کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں سابق صدر آصف زرداری کے علاوہ سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی بھی شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق خورشید انور جمالی، منظور قادر کاکا اور انور مجید کے نیب مقدمات بھی منتقل کیے گئے۔نیب کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جعلی اکاونٹس کیس کے مرکزی ملزم حسین لوائی کا کیس بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق اومنی گروپ کے عبدالغنی مجید کے خلاف نیب کیس بھی احتساب عدالت سے واپس ہو گئے۔نیب کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال مجموعی طور پر 22 مقدمات احتساب عدالتوں سے واپس ہوئے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نیب ترامیم کی روشنی میں 25 مقدمات دیگر فورمز کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے ایڈیٹڈ رپورٹ جمع کرا دی ہے؟نیب کے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جی نیب نے رپورٹ دے دی ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایف بی آر کے بیرونِ ملک سے حاصل کردہ ریکارڈ عدالت میں قابلِ قبول شواہد کے طور پر پیش نہیں کیے جا سکتے، کیا آئینِ پاکستان میں شکایت کنندہ کے حقوق درج ہیں؟وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ آئین میں صرف ملزم کے حقوق اور فیئر ٹرائل کے بارے میں درج ہے، آئینِ پاکستان شکایت کنندہ کے حقوق کی بات نہیں کرتا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نیب ترامیم کے بعد بین الاقوامی قانونی مدد کے ذریعے ملنے والے شواہد قابلِ قبول نہیں رہے۔وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ایف بی آر کو بیرونِ ممالک سے اثاثوں کی تفصیلات موصول ہو جاتی ہیں۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایف بی آر کو ملنے والی معلومات بطور ثبوت استعمال نہیں ہو سکتی۔وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ملزم سے برآمد ہونے والا مواد بھی نیب نے ہی ثابت کرنا ہوتا ہے، بیرونِ ملک سے لائے گئے شواہد بھی ثابت کرنا نیب کی ہی ذمے داری ہے، عدالتیں شواہد کو قانونی طور پر دیکھ کر ہی فیصلہ کرتی ہیں چاہے اپنے ملک کی کیوں نہ ہوں، سوئس عدالتوں نے آصف زرداری کے خلاف اپنے ملک کے شواہد تسلیم نہیں کیے تھے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوئس مقدمات تو زائد المعیاد ہونے کی وجہ سے ختم ہوئے تھے عدم شواہد پر نہیں۔وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے سوئس حکام سے معاونت کس قانون کے تحت مانگی تھی کوئی نہیں جانتا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا قانون میں ملزم کے ساتھ شکایت کنندہ کے حقوق بھی ہیں؟وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ آئین ملزم کو شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے، شکایت کنندہ کا ذکر نہیں، کل کہا گیا کہ نیب تحقیقات پر اربوں روپے لگے، اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی نیب مقدمات میں سزا کی شرح 50 فیصد سے کم ہے