فوجی افسران اور ججز بھی قابل احتساب ہیں، جسٹس منصور علی شاہ

0
102

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ فوجی افسران اور ججز بھی نیب ترامیم کے تحت قابلِ احتساب ہیں۔سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کا نیب ترامیم کیس میں 15 ستمبر کے فیصلے سے اختلافی نوٹ جاری کر دیا گیا۔جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ 27 صفحات پر مشتمل ہے۔اختلافی نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے کہ عدلیہ قانون سازی کا تب جائزہ لے سکتی ہے جب وہ بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہو۔جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ قانون سازوں کا مفاد سامنے رکھ کر قانون سازی جانچنا پارلیمنٹ اور جمہوریت کونیچا دکھانے کے مترادف ہے۔اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ اختلافِ رائے رکھنے والا ہجوم کی سمت میں نہیں، مستقبل کی سمت میں چلتا ہے، عدالتوں کو پاپولر سیاسی بیانیے پر نہیں چلنا ہوتا۔جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ عوامی جذبات کے خلاف جا کر بھی عدالت کو آئین و قانون کے مطابق فیصلے دینا ہوتے ہیں، اداروں کے درمیان توازن اسی صورت قائم رہ سکتا ہے جب احترام کا باہمی تعلق ہو، عدلیہ کو اس وقت تک تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے جب تک آئینی حدود کی خلاف ورزی نہ ہو۔انہوں نے کہا کہ درخواست گزار نیب ترامیم کو عوامی مفاد کے برعکس ثابت کرنے میں ناکام رہا، میں آئین کے آرٹیکل 8 (2) کے پیش نظر درخواست کو میرٹ پر نہ ہونے پر خارج کرتا ہوں، پارلیمان کے بنائے تمام قوانین بالاخر کسی نہ کسی انداز میں بنیادی حقوق تک پہنچتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ نیب قانون کے تحت ججز اور فوجی افسران کا احتساب ہو سکتا ہے، کیس کی 50 سماعتوں پر سوال کیا کہ کیا فوجی افسران اور ججز کا احتساب ہو سکتا ہے؟ فوجی افسران اور ججز بھی نیب ترامیم کے تحت قابلِ احتساب ہیں، تاثر ہے کہ فوجی افسران اور ججز کی کرپشن کا کوئی احتساب نہیں ہو سکتا۔جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ پارلیمنٹرین کا قانون چیلنج کرنے کا حقِ دعوی نہیں بنتا، جمہوری نظام میں اکثریت کا ہی فیصلہ یا قانون سازی حتمی تصور ہوتی ہے، اکثریت سے منظور قانون سازی کو حمایت میں ووٹ دینے والوں کے بجائے پوری پارلیمنٹ کی قانون سازی سمجھا جانا چاہیے، پارلیمنٹ میں قانون سازی سے اختلاف کرنے والے اس کو چیلنج کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ اختلافی نوٹ میں سپریم کورٹ کے جج نے کہا ہے کہ عدالت پارلیمنٹ کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی، درخواست گزار کے وکیل نیب ترامیم کو بنیادی حقوق کے خلاف ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے، پارلیمنٹ جو کر سکتی ہے اس کو ختم بھی کر سکتی ہے، مسلسل سوال کے باوجود درخواست گزار نہیں بتا سکے کہ نیب ترامیم سے بنیادی حقوق کیسے متاثر ہوئے۔