سائفر کیس،عمران خان، شاہ محمود قریشی کا اوپن ٹرائل اڈیالہ جیل میں دوبارہ شروع، سماعت پیر تک ملتوی

0
110

راولپنڈی(این این آئی)سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی کارروائی ہفتہ کواڈیالہ جیل میں دوبارہ شروع ہوئی تاہم جیل حکام نے بیشتر صحافیوں کو اوپن ٹرائل میں شرکت سے روک دیا۔تفصیلات کے مطابق رواں ہفتے کے آغاز میں خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے فیصلہ دیا تھا کہ سیکیورٹی خدشات کے باعث سائفر کیس کا اوپن ٹرائل اڈیالہ جیل میں ہوگا۔خصوصی عدالت کے اِس حکم کے مطابق ہفتہ کو عدالت میں ہونے والی کارروائی میں شرکت کے خواہشمند افراد سمیت صحافیوں کو بھی شرکت سے روکا نہیں جانا تھا، جج نے گزشتہ روز سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکلا کو بھی اس کی یقین دہانی کرائی تھی تاہم جیل حکام نے صحافیوں کو جیل میں داخل ہونے سے روک دیا، سماعت شروع ہوئی تو جیل کے باہر مقامی اور بین الاقوامی صحافیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔صبح سوا 10 بجے کے قریب صرف 2 صحافیوں کو جیل میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی تاہم یہ واضح نہیں کہ وہ سماعت میں شرکت کر سکے یا نہیں۔ ایک صحافی عادل سعید عباسی نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ ان کی ٹیم صبح 8 بجے کے قریب جیل پہنچی تاہم2 گھنٹے سے زیادہ کا وقت گزر جانے کے بعد بھی انہیں جیل کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔انہوں نے کہا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ نے میڈیا کارکنوں سے ان کے نام پوچھے، انہیں نوٹ کیا اور اندر چلے گئے، ایسا 3 بار ہو چکا ہے۔عدالت میں پی ٹی آئی کے دونوں رہنمائوں کے وکلا کے علاوہ عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی اور بہنیں جبکہ شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہر بانو اور بیٹا زین قریشی بھی عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے دوران عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی حاضری لگائی گئی جس کے بعد سماعت 4 دسمبر (پیر)تک ملتوی کر دی گئی۔بیشتر صحافی اور شہری سماعت میں شرکت سے قاصر رہے، سماعت ختم ہونے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اسپیشل پراسیکیوٹر نیب ذوالفقار عباس نقوی نے کہا کہ کارروائی صرف ملزمان کی حاضری لگانے کیلئے تھی، عدالت نے کیس کی سماعت 4 دسمبر تک ملتوی کر دی۔صحافیوں کو کمرہ عدالت کے اندر جانے کی اجازت نہ دیے جانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جج اس معاملے کا خود جائزہ لے رہے ہیں۔واضح رہے کہ 21 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں جاری جیل ٹرائل کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی انٹراکورٹ اپیل کو منظور کرتے ہوئے جیل ٹرائل کا 29 اگست کا نوٹی فکیشن غیرقانونی قرار دے دیا تھا۔بعدازاں 23 نومبر کو سائفر کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 28 نومبر کو اسلام آباد کے فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس (ایف جے سی)میں پیش کرنے کی ہدایت کردی تھی۔28 نومبر کو عمران خان کو خصوصی عدالت میں پیش کرنے سے اڈیالہ جیل حکام نے سیکیورٹی خدشات کے سبب معذرت کرلی تھی، عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا تھا کہ کیس کا اوپن ٹرائل اڈیالہ جیل میں ہی ہوگا۔گزشتہ روز یکم دسمبر کو وفاقی وزارت داخلہ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا۔یاد رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا تھا۔ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی دے چکے ہیں۔اعظم خان نے اپنے بیان میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ عمران خان نے اس خفیہ دستاویز کا استعمال عوام کی توجہ عدم اعتماد کی تحریک سے ہٹانے کے لیے کیا جس کا وہ اس وقت بطور وزیر اعظم سامنا کر رہے تھے۔خیال رہے کہ اس کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی جوڈیشل ریمانڈ پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، کیس کی ابتدائی سماعت اٹک جیل میں ہوئی تھی جس کے بعد انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی۔پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی