سارہ انعام قتل کیس،عدالت کا شاہ نواز امیر کو سزائے موت کا حکم، ملزمہ ثمینہ بری

0
160

اسلام آباد (این این آئی)ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے شوہر کے ہاتھوں قتل ہونے والی کینیڈین شہری سارہ انعام کے قتل کے ملزم شاہ نواز امیر کو سزائے موت اور 10 لاکھ جرمانے کا حکم دیتے ہوئے ملزمہ ثمینہ شاہ کو کیس سے بری کر دیا۔ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کے جج ناصر جاوید رانا نے فیصلہ سنایا، جو عدالت نے 9 دسمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔سارہ انعام کے والد انعام الرحیم، ملزم شاہ نواز امیر، ملزم کے والد ایاز امیر اور والدہ شریک ملزمہ ثمینہ شاہ بھی عدالت میں پیش ہوئیں۔عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ملزم شاہ نواز امیر کو سزائے موت اور 10 لاکھ جرمانے کا حکم دے دیا جبکہ ملزمہ ثمینہ شاہ کو عدم ثبوت کی بنا پر کیس سے بری کر دیا۔سارا انعام کے والدین فیصلے کے وقت آبدیدہ ہوگئے۔عدالت نے جیسے ہی فیصلہ سنایا، پولیس شاہ نواز امیر کو کمرہ عدالت سے لے کر روانہ ہو ئی۔سماعت سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مقتولہ سارہ انعام کے والدین نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ملزم اور اس کی ماں کو زیادہ سے زیادہ سزا ملنی چاہیے، اگر انہیں سزائے موت یا عمر قید سے کم سزا ملتی ہے تو یہ ہمارے لیے ناقابل قبول ہوگی۔انہوںنے کہا تھا کہ ہم سمجھیں گے کہ پتہ نہیں انصاف ہوا ہے کہ نہیں، یہ ایک نا ممکن انصاف ہوگا، اس دن رات کے 7 بجے سے صبح 10 بجے تک 3 لوگ اس گھر میں موجود تھے، جب پولیس پہنچی، صبح کے وقت میری بیٹی دنیا سے جا چکی تھی، صرف ماں اور بیٹا تھے، میری بیٹی کو ماں نے مارا یا لڑکے نے، یا پھر دونوں نے مل کر مارا ہے۔خیال رہے کہ 5 دسمبر 2022 کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے سارہ انعام قتل کیس میں کے مرکزی ملزم شاہنواز اور ان کی والدہ پر فرد جرم عائد کردی تھی۔بعد ازاں، 9 دسمبر کو سارہ انعام قتل کیس کی سماعت سیشن جج ناصرجاوید رانا کی عدالت میں ہوئی تھی، پراسیکیوٹر رانا حسن عباس، مدعی وکیل راؤ عبدالرحیم اور وکیل ملزمہ نثار اصغر عدالت پیش ہوئے۔مرکزی ملزم شاہنواز امیر، ان کی والدہ اور شریک ملزمہ ثمینہ شاہ، مقتولہ سارہ کے والد انعام الرحیم اور ملزم کے والد ایاز امیر بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ملزمہ ثمینہ شاہ کے وکیل نثار اصغر نے حتمی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ملزمہ ثمینہ شاہ پر الزام ہے کہ وہ جائے وقوعہ پر موجود تھیں اور انہوں نے ملزم کی معاونت کی، ملزمہ ثمینہ شاہ پر الزام صرف سارہ انعام کے قتل کی معاونت تک کا ہے مگر 342 کے بیان میں ملزمہ ثمینہ شاہ کی معاونت کا کوئی ثبوت نہیں۔انہوںنے کہا تھا کہ سارہ انعام کے قتل سے متعلق ثبوت ثمینہ شاہ کی معاونت کو ثابت نہیں کرتے، پولیس نے جتنے بھی شواہد اکٹھا کیے ہیں ان میں سے کوئی بھی ثبوت ثمینہ شاہ کے خلاف نہیں جاتا، جتنی بھی تصاویر بطور ثبوت سامنے آئیں، ان میں ثمینہ شاہ کی موجودگی نہیں ہے۔وکیل نثاراصغر نے حتمی دلائل مکمل کرتے ہوئے ثمینہ شاہ کو کیس سے بری کرنے کی استدعا کی تھی۔بعد ازاں سارہ انعام قتل کیس میں پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے حتمی دلائل کا آغاز کیا، انہوںنے کہا تھا وکیل صفائی نیکہا سارہ انعام کو صرف ایک انجری ہوئی لیکن حقیقتاً ان کو متعدد انجریاں ہوئیں، طبی رپورٹ کے مطابق تشدد کی وجہ سے سارہ انعام کی موت واقع ہوئی۔پراسیکیوٹررانا احسن نے کہا تھا کہ شاہنواز امیر کا ڈی این اے سارہ انعام کے ساتھ میچ ہوا، یعنی ساتھ رہنے کی بات ثابت ہوگئی، کسی تیسرے شخص کا ڈی این اے میچ نہیں ہوا یعنی کسی اور پر قتل کا شک نہیں کیا جاسکتا۔وکیل مدعی راؤ عبدالرحیم کا کہنا تھا کہ قتل کرنے کے بعد ملزم نے مقتولہ کی تصویر بنائی، گواہان نے عدالت کے سامنے 161 کے بیانات کی تفصیل بتائی جو کرنا چاہیے، گواہان اگر جھوٹ بول بھی دیں تو دستاویزات کبھی جھوٹ نہیں بولتیں، پوسٹ مارٹم رپورٹ کہہ رہی ہے کہ سارہ کو ڈمبل سے مارا گیا اور ملزم کے موبائل سے بنی تصویر جھوٹی نہیں۔ساتھ ہی مدعی وکیل راؤ عبد الرحیم نے ملزم کو کڑی سزا کی استدعا کردی تھی۔بعد ازاں عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد سارہ انعام قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا، جو سیشن جج ناصر جاوید رانا آج سنائیں گے۔خیال رہے کہ اسلام آباد پولیس نے 23 ستمبر 2022کو ایاز امیر کے بیٹے کو اپنی پاکستانی نڑاد کینیڈین شہری بیوی کو مبینہ طور پر قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا جس کے ایک روز بعد اس کیس میں معروف صحافی کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا