جس کے بھی کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے وہ اپیل کرے گا، بات ختم،چیف جسٹس

0
157

اسلام آباد(این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جس کے بھی کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے وہ اپیل کرے گا، بات ختم،آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت کی درخواست دی گئی، اب ثبوت تو دئیے جائیں جبکہ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست پر آئی جی اور چیف سیکرٹری اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹسز جاری کر دئیے۔بدھ کو سپریم کورٹ میں لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق پی ٹی آئی کی توہین عدالت کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ کا حصہ ہیں۔عدالت نے پی ٹی آئی کی درخواست پر آئی جی اور چیف سیکریٹری اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹسز جاری کر دئیے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن کمیشن پنجاب کے خط کے جواب میں ہدایات جاری کی تھیں، بتایا جائے کہ الیکشن کمیشن کی ہدایات پر عملدرآمد ہوا یا نہیں۔دور ان سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ شعیب شاہین کہاں ہیں؟ شعیب شاہین، آپ روسٹرم پر آجائیں، یہ آپ کی درخواست تھی، شعیب شاہین صاحب آپ نے درخواست دائر کی آپ دلائل دیں۔وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ لطیف کھوسہ سینئر وکیل ہیں، میں نے ان سے دلائل کی درخواست کی ہے، میں لطیف کھوسہ کے ساتھ کھڑا ہوں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لطیف کھوسہ کے نام کے ساتھ سردار لکھنے پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ سردار، نواب اور پیر جیسے الفاظ اب لکھنا بند کر دیں، 1976ء کے بعد سے سرداری نظام ختم ہو چکا ہے، یا تو پاکستان کا آئین چلائیں یا پھر سرداری نظام، آئین پاکستان کے ساتھ اب مذاق کرنا بند کر دیں۔وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرے شناختی کارڈ پر سردار لکھا ہے اس لیے عدالت میں بھی سردار لکھا گیا۔چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سردار اور نوابوں کو چھوڑ دیں، اب غلامی سے نکل آئیں، سردار لکھ کر اپنا رتبہ بڑا کرنے کی کوشش نہ کیا کریں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ توہین عدالت کی درخواست ہے کوئی نیا کیس نہیں، مرکزی کیس 22 دسمبر کو نمٹایا جا چکا ہے، آپ کی درخواست میں بہت سارے توہین عدالت کرنے والوں کے نام ہیں، الیکشن کمیشن نے کیا توہین عدالت کی ہے؟ کیا الیکشن کمیشن نے آپ کے بارے کوئی فیصلہ دیا؟ کیا الیکشن کمیشن نے صوبائی الیکشن کمیشن کو احکامات دیے؟چیف جسٹس نے وکیل لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کہ الیکشن کمیشن نے کوئی توہین کی ہے تو ثبوت دکھائیں۔وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں سی ڈی لایا ہوں اس میں سارے ثبوت ہیں، ہمارے رہنماؤں کو کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرانے دیے گئے، سارے پاکستان نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہاں سیاسی تقریر نہ کریں، آئین و قانون کی بات کریں، آپ کہہ رہے آئی جی اور چیف سیکرٹری نے کارروائی کی، آئی جی اور چیف سیکرٹری کا الیکشن سے کیا لینا دینا ہے؟ آئی جی اور چیف سیکرٹری نے نہیں، شفاف انتخابات الیکشن کمیشن نے کرانے ہیں، توہین عدالت کی درخواست الیکشن کمیشن کے خلاف ہے، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے کون سے حکم کی توہین کی ہے؟ آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت کی درخواست دی گئی، اب ثبوت تو دئیے جائیں، مجھے سمجھ نہیں آرہی ہم یہ توہین عدالت کی درخواست سن کیوں رہے ہیں، اگر آئی جی اور چیف سیکرٹری سے مسئلہ ہے تو ان کے خلاف درخواست دیں، آپ افراد کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں یا الیکشن کمیشن کے خلاف؟وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ شفاف انتخابات کرائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ بالکل، ہم یہی کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، آپ آئی جیز اور چیف سیکرٹری کے خلاف توہین عدالت چاہ رہے ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے قومی و صوبائی اسمبلیوں سے کتنے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے؟ آپ کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کا بتا رہے ہیں، منظوری کا بھی تو بتائیں، آپ نے لکھا، سوشل میڈیا کے مطابق اتنے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے، پی ٹی آئی کے پاس امیدواروں کے کاغذات منظور یا مسترد کا ڈیٹا نہیں؟ درخواست میں میجر فیملی لکھا ہے، کیا کوئی میجر انتخابات لڑ رہا ہے؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جن کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے وہ اپیل کر دیں گے، آپ چاہتے ہیں سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کا کردار ادا کرے؟وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ صرف ایک سیاسی جماعت کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ مائک آپ کی جانب موڑ دیتے ہیں آپ پی ٹی آئی کی سیاسی تقریر کر لیں، آپ ہر بات کے جواب میں سیاسی جواب دے رہے ہیں، یہ قانون کی عدالت ہے، آپ درخواست میں توہین عدالت کے مرتکب ہونے کا الزام آئی جی پر لگا رہے ہیں، انتخابات آئی جی، چیف سیکرٹریز یا سپریم کورٹ نے کرانے ہیں؟ ہر ہائی کورٹ میں الیکشن ٹریبونل بن چکے ہیں، وہاں جائیں، بارہا کہا عدالتیں جمہوریت اور انتخابات کے لیے ہر سیاسی جماعت کے پیچھے کھڑی ہیں۔وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ مجھے بھی سن لیں میں 55 سال سے وکالت کر رہا ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ جس کے بھی کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے وہ اپیل کرے گا، بات ختم۔وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ تین دن سے ریٹرننگ افسر کے آرڈر کی کاپی نہیں ملی تو اپیل کہاں کریں؟چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کے حکم پر 26 دسمبر کو مفصل عملدرآمد رپورٹ دی