کشمیری (کل )5جنوری کو ”یوم حق خود ارادیت ”منائیں گے

0
568

سرینگر(این این آئی) کنٹرول لائن کے دونوں طرف اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری5 جنوری کو” یوم حق خود ارادیت” کے طور پر منائیں گے اور اپنے اس عزم کی تجدید کریں گے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اپنے ناقابلِ تنسیخ حق”حق خود ارادیت” کے حصول تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ”یوم حق خود ارادیت”منانے کی اپیل جماعتی حریت کانفرنس نے کی ہے۔ اُس روز آزاد جموں و کشمیر، پاکستان اور دنیا کے تمام بڑے دارالحکومتوں میں احتجاجی مظاہروں، ریلیوں، سیمیناروں اور کانفرنسوں سمیت مختلف مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جائے گا اور اقوام کو یاد دلایا جائے گا کہ اسے تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے اپنی متعلقہ قراردادوں پر عمل درآمد کرانا چاہیے۔ یہ 5جنوری 1949 کا دن تھا جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک تاریخی قرارداد منظور کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے سوال کا فیصلہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے جمہوری طریقے سے کیا جائے گا ۔ یہ قرارداد دیرپا تنازعہ کے حل کی بنیاد فراہم کرتی ہے جو جنوبی ایشیا میں ایک جوہری فلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد پر عملدرآمد میں واحد رکاوٹ بھارت کامنفی رویہ، ہٹ دھرمی اور غیر حقیقت پسندانہ طرز عمل ہے۔عالمی ادارے کی قرارداد پر اب تک عملد رآمد نہ ہونے کی وجہ سے کشمیری مسلسل مصائب ومشکلات کا شکار ہیں۔سات دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اقوام متحدہ کی طرف سے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے حوالے سے پاس کی جانے والی قراردادوں پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔نریندر مودی کی زیر قیادت فسطائی بھارتی حکومت نے 05 اگست 2019 کو مقبوضہ جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت غیر قانونی اور یکطرفہ طور پر ختم کر کے مقبوضہ علاقے میں مظالم میں مظالم تیز کیے اور کشمیریوں کے تمام بنیادی حقوق سلب کر لیے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، آسیہ اندرابی اور نعیم احمد خان سمیت ہزاروں کشمیری بھارتی جیلوں میں بند ہیں۔بی جے پی کی ہندو توا حکومت کشمیریوں کو ڈرانے دھمکانے کیلئے بدنام زمانہ تحقیقاتی اداروں ”این آئی اے، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریت اور ایس آئی اے ”وغیرہ کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے ۔ کشمیریوں کی حق خود اردیت سے تاحال محرومی اقوام متحدہ کے وجود پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کیونکہ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کو استصواب رائے کے ذریعے آزادی دی گئی جب کہ مقبوضہ جموںو کشمیر کے لوگ بھارتی ریاستی دہشت گردی کا مسلسل شکار ہیں۔