حکومت نے سرکاری ملکیتی اداروں کے خسارہ میں کمی کیلئے متعدد اقدامات کئے ہیں، نگران وزیر اطلاعات

0
73

اسلا م آباد(این این آئی)نگران وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور مرتضی سولنگی نے کہا ہے کہ حکومت نے سرکاری ملکیتی اداروں کے خسارہ میں کمی کیلئے متعدد اقدامات کئے ہیں، ان سرکاری اداروں کی نجکاری سمیت مزید اصلاحات کا فیصلہ نو منتخب حکومت کرے گی۔ پیر کو سینٹ اجلاس میں سینیٹر مشتاق احمد نے ملک کے سرکاری ملکیتی اداروں کی کارکردگی سے متعلق تحریک پیش کرتے ہوئے سینیٹر مشتاق احمد نے کہاکہ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق ریاستی ادارے اربوں کے خسارے میں ہیں۔ انہوںنے کہاکہ دس فیصد غریب طبقے کے ٹیکس د فیصد بالادست طبقے سے بھی زیادہ ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ایف بی آرکے دس ہزار سے زیادہ ٹیکس ریٹرن جع نہیں کرتے۔ انہوںنے کہاکہ اس وقت ملک کی چالیس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان اس وقت شدید مالی مشکلات کا شکار ہے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کے ریاستی ملکیتی ادارے ایشیا کے بد ترین ریاستی ملکیتی ادارے ہیں،ان اداروں پر سالانہ 458ارب روپے خرج کیا جا رہا ہے ،ان اداروں کی نجکاری کرنی چاہیے،ان اداروں میں ریفارمز لائی جائے،نجکاری بھی صاف و شفاف ہونی چاہیے۔ انہوںنے کہاکہ یہ نہ ہو کہ پہلے ادارے کو جان بوجھ کر خسارے میں لے جائے اور بعد اپنے فرنٹ مینوں کیذریعے اونے پونے داموں خریدے۔ سینیٹر ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہاکہ ریاستی ملیکتی اداروں کے خسارے کے ذمہ دار تمام حکومتیں ہیں،ان اداروں کے بورڈ آف گورنرز میں مفادات کے ٹکرائو کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا۔سینیٹر محمد اکرم نے کہاکہ سامراجی اداوں سے حاصل ہونے والے قرضوں کا حساب کتاب ہونا چاہیے ۔ انہوںنے کہاکہ سی پیک کے تحت حاصل کیے گئے قرضے زیادہ تر پجاب پر خرچ ہوئے،ہمارے یہاں قرضے انسانی وسائل اور انڈسٹری پر خرچ نہیں ہوئے،بتایا جائے کہ قرضے کہاں خرچ ہوئے؟۔ انہوںنے کہاکہ مسلم لیگ (ن )اور پیپلزپارٹی نے تیس تیس سال حکومتیں کیں،اب یہ دونوں پھر حکومت بنانے جارہی ہے،بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے۔ انہوںنے کہاکہ بلوچستان کے نوجوانوں کو روزگار نہیں دینگے تو وہ اسلحہ اٹھائیں گے۔سینیٹر ڈاکٹر ہمایوں مہند نے کہاکہ گولڈن ہینڈ شیک کرنیوالے افسران ابھی بھی سیلری لے رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ صرف بیوروکریسی کے نہیں ہمارے سیاسی رہنمائوں کے اثاثے بھی چیک ہونے چاہئیں۔ چیئر مین سینٹ نے کہاکہ ہم نے تمام ریاستی ملیکیتی اداروں کی تفصیلات منگوائی ہیں،ایک ایک کرکے تمام اداروں کے خسارے کا جائزہ لیا جائے گا۔سینیٹر پیر سید صابر شاہ نے کہاکہ ریاستی اداروں کی نجکاری میں کون رکاوٹ ہیں،ہماری ذرخیز زمینوں پر ہاوسنگ سوسائٹیز بن رہی ہیں،اس سے ہماری زراعت تباہ ہو گئی ہے،دوسری طرف لوگ ارب پتی بن گئے ہیں،پاکستان کی بہتری کے لئے تلخ فیصلے کرنے ہونگے،پاکسان اسٹیل ملز،پی آئی اے کی نجکاری کیلئے فوری اقدامات ہونگے۔سینیٹر دنیش کمار نے کہاکہ بلوچستان کا ترقیاتی بجٹ 150ارب جبکہ ان اداروں کا سالانہ بجٹ 458ارب روپے ہیں،مین ان کو کارپوریشنز نہیں ،درندے کہتا ہوں،ریاستی ملکیتی ادارے خون چوستے ہیں۔بحث سمیٹتے ہوئے نگران وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور مرتضی سولنگی نے کہا کہ سرکاری ملکیتی اداوں کے نقصانات ختم کرنے سے کسی کو اختلاف نہیں تاہم ان نقصانات کو ختم کرنے کے بارے میں مختلف آرا ہیں، کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ نجکاری واحد حل ہے، بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ پروفیشنل انداز میں بہتری لائی جا سکتی ہے، اس بارے میں حتمی فیصلہ نو منتخب حکومت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ 200 سے زائد ادارے خسارے کا شکار ہیں، ان میں پاور، فنانس اور کمیونیکیشن کے ادارے شامل ہیں۔ انہوںنے کہاکہ وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق ان اداروں کا خسارہ 730 ارب روپے ہے، منافع بخش اداروں کا مجموعی منافع 570 ارب روپے تھا۔ انہوں نے کہا کہ نیٹ لاسز 160 ارب روپے کے قریب ہیں، ان نقصانات میں پاور سیکٹر، پی آئی اے، این ایچ اے، ریلویز اور سٹیل ملز شامل ہیں۔ این ایچ اے کے نقصانات 170 ارب روپے کے قریب تھے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت نے سرکاری اداروں میں نقصانات میں کمی کیلئے نمایاں اصلاحات کی ہیں۔ ستمبر 2023 میں ریاستی ملکیتی اداروں سے متعلق پالیسی منظور کر لی گئی ہے ان اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے وزارت خزانہ نے سنٹرل مانیٹرنگ یونٹ قائم کیا ہے