غزہ کی جنگ تنہا لڑیں گے، حزب اللہ کی ایران کو یقین دہانی

0
63

مقبوضہ بیت المقدس(این این آئی)ایک طرف غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ اور دوسری طرف جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ جھڑپوں سے تنازع کے خطے میں پھیلنے کے خدشات موجود ہیں تاہم اب باخبر ذرائع نے جاری ہونے والی کچھ معلومات کا انکشاف کیا ہے کہ حزب اللہ اور ایران کے درمیان ہم آہنگی ہوگئی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا کہ غزہ میں حماس پر حملے کے درمیان ایرانی قدس فورس کے کمانڈر اسماعیل قاآنی نے فروری میں بیروت کا دورہ کیا تھا۔ اس میں اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ گروپ کو نشانہ بنانے کی صورت میں پیدا ہونے والے خطرات پر بات چیت کی گئی۔ یہ واضح کیا گیا کہ اسرائیلی حملہ سنگین نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ قاآنی نے لبنان کے دارالحکومت میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصر اللہ سے 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد کم از کم تیسری بار ملاقات کی۔ذرائع نے مزید کہا کہ بات چیت کا رخ اس امکان کی طرف ہوا کہ اسرائیل لبنان میں ایک وسیع حملہ کرے گا۔ اس تناظر میں تین ذرائع، جو اتھارٹی کے اندرونی حلقے سے تعلق رکھنے والے ایرانی اہلکار ہیں، نے انکشاف کیا کہ اس طرح کی بڑھتی ہوئی کارروائی سے ایران پر دبا بڑھ سکتا ہے کہ وہ اب تک جو کچھ بھی کر چکا اس کے مقابلے میں زیادہ طاقت سے رد عمل دے اور پھر اس سے حزب اللہ پر اثرات مرتب ہوں گے۔ذرائع نے اشارہ کیا کہ اس سے پہلے کی غیر اعلانیہ ملاقات میں نصر اللہ قاآنی نے کہا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ایران اسرائیل یا امریکہ کے ساتھ جنگ میں الجھ جائے اور حزب اللہ تنہا لڑے گی۔ بات چیت سے واقف ایک ایرانی ذریعہ کے مطابق حسن نصر اللہ نے اپنے مہمان سے کہا ہے کہ “یہ ہماری جنگ ہے۔” دو ایرانی ذرائع نے کہا کہ ایران اور حزب اللہ ان سنگین خطرات سے آگاہ ہیں جو لبنان میں ایک وسیع جنگ سے پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس میں ایرانی جوہری تنصیبات پر براہ راست حملے کے خطرے کو بھی مد نظر رکھا گیا۔دو امریکی اور اسرائیلی ذرائع نے تصدیق کی کہ تہران اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کسی بھی جنگ کے نتائج سے بچنا چاہتا ہے۔ ایرانی حکام نے وضاحت کی ہے کہ اگر اسرائیل حزب اللہ کے خلاف بڑی فوجی کارروائی کرتا ہے تو تہران خود کو اپنی پراکسی جنگ کو تیز کرنے پر مجبور پا سکتا ہے۔تاہم ایک ایرانی سیکورٹی اہلکار نے تسلیم کیا ہے کہ ایران کی براہ راست شرکت اسرائیل کے مفادات کو پورا کر سکتی ہے اور خطے میں امریکی افواج کی مسلسل موجودگی کا جواز فراہم کر سکتی ہے۔تجزیہ کاروں نے بیروت کے اس اجلاس کو خطے میں کسی بڑی کشیدگی سے بچنے کی ایران کی حکمت عملی پر دبا کو اجاگر کرنے کے طور پر دیکھا ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق ایران نے عراق، شام اور یمن میں اتحادی مسلح گروپوں کے ذریعے مشرق وسطی میں غزہ کے لیے طاقت اور حمایت کا مظاہرہ بھی کیا ہے