سپریم کورٹ نے فیصل واڈا، مصطفی کمال کی غیر مشروط معافی قبول کرلی، توہین عدالت کا نوٹس واپس

0
64

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ نے رہنما متحدہ قومی موومنٹ پاکستان مصطفی کمال اور سینیٹر فیصل واڈا کی غیر مشروط معافی قبول کرلی، توہین عدالت کا نوٹس بھی واپس لے لیا۔سپریم کورٹ میں سینیٹر فیصل واڈا اور رہنما متحدہ قومی موومنٹ پاکستان مصطفی کمال کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی ۔فیصل واڈا اور مصطفی کمال ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر مصطفی کمال کے وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیے کہ مصطفی کمال نے غیر مشروط معافی مانگی ہے، اب پریس کانفرنس میں بھی ندامت کا اظہار کر چکے ہیں۔اس پر چیف جسٹس نے فیصل واڈا سے دریافت کیا کہ آپ کے وکیل نہیں آئے؟ کیا آپ نے بھی معافی مانگی ہے؟فیصل واڈا نے جواب دیا کہ جی میں نے بھی معافی مانگی ہے۔اس موقع پر ٹی وی چینلز کی جانب سے فیصل صدیقی ایڈووکیٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے مکل کہاں ہیں؟وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ 26 چینل کی جانب سے میں وکیل ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے کسی کلائنٹ نے ابھی تک کوئی جواب جمع نہیں کروایا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی ایک میڈیا کی جانب سے بھی تحریری جواب جمع نہیں کروایا گیا، اس پر وکیل نے بتایا کہ میڈیا اداروں کو شوکاز نوٹسز نہیں تھے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ کیا آپ میڈیا اداروں کو شوکاز کروانا چاہتے ہیں؟ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ کم از کم میڈیا اداروں کے کسی ذمہ دار افسر کا دستخط شدہ جواب جمع ہونا چاہیے تھا۔چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ آپ نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا، وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ تمام چینلز کے نمائندگان عدالت میں موجود ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ لیکن چینلز کی جانب سے جواب جمع نہیں کرایا گیا ہے، وکیل فیصل صدیقی نے کہا میں تحریری جواب جمع کروا چکا ہوں۔اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ جواب پر دستخط وکیل کے ہیں، توہین عدالت کیس میں دستخط چینلز کے ہونا لازمی ہیں، فیصل صدیقی نے بتایا کہ شوکاز نوٹس ہوتا تو جواب چینلز کے دستخط سے جمع ہوتا۔اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو آئین پسند نہیں؟ میں سمجھا آپ آئین سے بات کا آغاز کریں گے، کوئی کسی کو چور ڈاکو کہے اور میڈیا کہے ہم نے صرف رپورٹنگ کی ہے کیا یہ درست ہے؟ کیا ایسے آزاد میڈیا کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں؟ آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے دو الگ الگ چیزیں ہیں۔اس پر وکیل ٹی وی چینلز فیصل صدیقی نے کہا کہ فریڈم آف پریس کی وضاحت 200 سال سے کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ 200 سال سے کیوں ، 1400سال سے کیوں شروع نہیں کرتے، آپ کو 1400سال پسند نہیں؟ 200 کا ذکر اس لیے کر رہے ہیں کہ تب امریکا آزاد ہوا؟وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میں 200 سال کی بات اس لیے کر رہا ہوں کہ ماڈرن آئین کی ابتدا تب ہوئی۔اس پر چیف جسٹس نے فیصل صدیقی کو آئین کا دیباچہ پڑھنے کی ہدایت کر دی۔چیف جسٹس نے کہا کہ بسمہ اللہ الرحمن الرحیم سے آغاز ہو رہا ہے آئین کا، اس میں کہاں ماڈرن ایج کا ذکر ہے؟ کس قانون میں لکھا ہے آپ نے پریس کانفرس لائیو ہی دکھانا تھی، سارا دھندا پیسے کا ہے، ایمان ،نیت ،اخلاق و تہذیب کا نہیں، ایسا بھی نہیں ہوا کہ ایک بار غلط بات آنے پر پریس کانفرنس کوکاٹ دیا ہو، اب فریڈم آف ایکسپریشن کے تحت بتائیں اس پریس کانفرنس سے کتنے پیسے کمائے ہیں؟وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں کلائنٹس سے ہدایات لے لیتا ہوں۔دور ان سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے خود کہا کہ کم از کم ایک پریس کانفرنس تو توہین آمیز تھی، فیصل صدیقی نے بتایا کہ میں نے بادی النظر میں توہین کہا تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے ایسا کچھ نہیں کہا ایسا مت کریں، فیصل صدیقی نے بتایا کہ میں نے کہا تھا بادی النظر میں توہین ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے جواب میں لکھا ہے آپ پریس کانفرنس میں کہی گئی باتوں سے متفق نہیں، پریس کانفرنس نشر کرتے وقت آپ نے ساتھ یہ لکھا تھا؟ آپ وہ بات جواب میں کیوں لکھ رہے ہیں جو کی نہیں، پریس کانفرنس کرنے والے دونوں نے آکر کم ازکم کہا کہ غلطی ہوئی، ہم بھی اپنی غلطی مانتے ہیں آپ نہیں مانتے، آپ نے جواب میں کہا آپ کی ڈیوٹی ہے پریس کانفرنس کوور کرنا، پاگل خانے میں کوئی پاگل پریس کانفرنس کرے وہ کوور کرنا آپ کی ڈیوٹی ہے؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پریس کانفرنس کرنے والے کہہ رہے ہیں ان سے غلطی ہو گئی، آپ مگر کہہ رہے ہیں کہ آپ کا فرض ہے یہ دکھائیں گے، جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ کوئی بھی شخص آکر کہہ دے میں عوام کا نمائندہ ہوں آپ اسے نشر کریں گے؟چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جو باتیں کر رہے ہیں وہ کہاں سے کر رہے ہیں؟ پیمرا سے یا کسی بین الاقوامی کنونشن سے دکھائیں، وکیل نے کہا کہ حقائق اور سچ میں فرق ہوتا ہے، اس پر چیف جسٹس نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ میں آج آپ سے نئی بات سیکھوں گا، وکیل نے جواب دیا کہ میں کہاں آپ کو کچھ بھی سکھا سکتا ہوں، سچ کا تناظر وسیع ہوتا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ آپ ہمارے سامنے کھڑے ہیں یہ حقیقت ہے یا سچ؟ آپ تو بال کی کھال اتارنے جیسی بات کر رہے ہیں، صدیقی صاحب وکیل نے اپنے کلائنٹ کا مفاد دیکھنا ہوتاہے