پولیس فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت ،واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم

0
228

اسلام آباد (این این آئی) اسلام آباد میں پولیس کی فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت کے معاملے پر چیف کمشنر اسلام آباد عامر علی احمد نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دے دیا۔ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نوجوان کی پولیس فائرنگ میں ہلاکت کی انکوائری کریں گے۔نوٹیفکیشن کے مطابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ انکوائری رپورٹ 5 دن میں جمع کروائیں گے۔اسلام آباد میں پولیس کی فائرنگ سے کار سوار نوجوان کی ہلاکت معمہ بن گئی، ابتدائی رپورٹ کے مطابق نوجوان کو 22 گولیاں ماری گئی ہیں، والد نے بتایا کہ پولیس والوں نے اعتراف کیا ہے بچہ بے قصور تھا۔کار سوار اسامہ کے والد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ میرے بیٹے کو 16،17 گولیاں ماری گئیں جس سے وہ جاں بحق ہوا۔اسامہ ندیم کے والد نے کہا کہ پولیس والوں نے اعتراف کیا کہ بچہ بے قصور تھا،ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ٹائر کے بجائے ونڈ اسکرین پر فائر کرکے کھلم کھلا دہشت گردی کی،وزیراعظم، وزیرداخلہ ،اسلام آباد انتظامیہ سیانصاف کی اپیل کرتا ہوں۔دوسری جانب پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق سی ٹی ڈی اہلکار ایچ 13 میں ڈکیتی کی اطلاع پر پہنچے، سی ٹی ڈی اہلکاروں نے ایک گاڑی کو روکنے کی کوشش کی، نہ رکنے پر اہلکاروں نے گاڑی کا تعاقب کیا۔سب انسپکٹر کا کہنا ہے کہ گاڑی والے نے ان پر فائرنگ کی جس پر اہلکاروں نے جوابی فائرنگ کی، نوجوان کو 22 گولیاں لگیں،ترجمان پمز وسیم خواجہ کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم کے مطابق سامنے سے گولیاں ماری گئی ہیں۔وقوعہ کے متعلق پولیس کی ابتدائی رپورٹ کی کاپی بھی سامنے آگئی ہے جس میں بتایا گیا کہ سی ٹی ڈی کی گاڑی میں ایک سب انسپکٹراور4 جوان سوار تھے،اہلکارایچ 13 میں ڈکیتی کی اطلاع پرموقع پرپہنچے تھے۔سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گاڑی کوروکنے کی کوشش کی، نہ رکنے پر اہلکاروں نے گاڑی کا تعاقب کیا ، سب انسپکٹر کا کہنا ہے گاڑی والے نے ان پر فائرنگ کی،اہلکاروں کی جوابی فائرنگ سے نوجوان کو 22گولیاں لگیں۔ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گاڑی سے کوئی اسلحہ نہیں ملا، نوجوان کا نام اسامہ ندیم ہے اور وہ ورچول یونیورسٹی کا طالبعلم تھا۔پولیس ذرائع کے مطابق پانچوں اہلکاروں کو تحویل میں لے لیا گیا ہے۔