فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش نہ کی جائے،ترجمان پاک فوج

0
270

راولپنڈ ی (این این آئی) پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش نہ کی جائے،کسی سے کوئی بیک ڈور رابطے نہیں، ہمیں معاملے سے دور رکھا جائے،حکومت وقت نے فوج کو الیکشن کرانے کی ذمہ داری سونپی، فوج نے پوری ذمہ داری اور دیانتداری سے الیکشن کرائے، پھر بھی کوئی شک ہے تو متعلقہ اداروں سے رجوع کیا جائے، الزامات لگانا اچھی بات نہیں ،فوج حکومت کا ذیلی ادارہ ہے،حکومت تمام الزامات کا بہتر انداز میں جواب دے رہی ہے،گزشتہ 10 سال پاکستان کے لیے ہر لحاظ سے بہت چیلنجنگ رہے، پاکستان میں کوئی بھی منظم دہشتگرد اسٹرکچر ماضی کی طرح موجود نہیں ہے، کراچی میں امن و امان کی صورتحال ترقی یافتہ ممالک کے دارالحکومتوں سے بھی بہتر ہے،خیبرپختونخوا اور بلوچستان جو خاص طور پر دہشت گردی کا شکار رہے، اب ترقیاتی منصوبے جاری ہیں، بلوچستان میں کچھ عرصے سے ملک دشمن قوتیں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کی در پر ہیں، پاکستان کے سیکیورٹی ادارے ان عزائم کو ناکام بنانے کے لیے شب و روز مصروف ہیں، ایل او سی پر بھارت کی اشتعال انگیزی میں اضافہ ہوا ہے،پاکستان فوج نے بھارتی اشتعال انگیزیوں کا ہمیشہ بھرپور طریقے سے جواب دیا ،ہم جواب دیتے رہیں گے ، بھارتی خفیہ ایجنسی را افغانستان میں داعش کی معاونت کر رہی ہے، پاکستانی میڈیا نے بھارتی پروپیگنڈے کو بے نقاب کیا جس پر میڈیا مبارکباد کا مستحق ہے،ہم سرکاری اور عسکری سطح پر افغانستان اور ایران سے رابطے میں ہیں، افغانستان میں داعش موجود ہے جسے را کی معاونت حاصل ہے جس کے بہت سے ثبوت موجود ہیں، افغان حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے، ان سے رابطے میں ہیں ،دونوں طرف رویہ بہت مثبت ہے، امریکہ اور پاکستان کی فوجوں کے درمیان روابط جاری ہیں، ہم اس حوالے سے بہت پرامید ہیں،2020 میں ہی سیکیورٹی چیلنجز کے علاوہ ٹڈی دل اور کووڈ 19 جیسی وبا نے پاکستان کی معیشت اور خوراک کے تحفظ کو بھی خطرے میں ڈالے رکھا،پاکستان نے اپنے محدود وسائل کے باوجود این سی سی کے ماتحت این سی او سی کے ذریعے بھرپور ردعمل دیا جس کا اعتراف دنیا کر رہی ہے۔پیر کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد ملک کی مجموعی سیکیورٹی صورتحال کے ساتھ ساتھ تقریباً ایک دہائی کے سیکیورٹی چیلنجز کا جائزہ اور دیگر اہم امور پر آپ کو آگاہی دینا ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 سال ہر لحاظ سے پاکستان کیلئے بہت چیلنجنگ وقت تھا، صرف 2020 میں ہی سیکیورٹی چیلنجز کے علاوہ ٹڈی دل اور کووڈ 19 جیسی وبا نے پاکستان کی معیشت اور خوراک کے تحفظ کو بھی خطرے میں ڈالے رکھا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ گزشتہ دہائی میں ایک طرف مشرقی سرحد اور لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھارتی شر انگیزی جاری تھی تو دوسری طرف مغربی سرحد پر کالعدم دہشت گرد تنظیموں کا جوڑ توڑ اور ان کی پشت پناہی کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کیا جارہا تھا، اس تمام چیلنجز کے باوجود ریاست، تمام قومی اداروں، افواج پاکستان، انٹیلی جنس ایجنسیز اور سب سے اہم پاکستانی عوام نے متحد ہوکر ان مشکلات کا مقابلہ کیا اور بحیثیت قوم اللہ نے ہمیں سرخرو کیا۔انہوں نے کہا کہ مغربی سرحد پر قبائلی اضلاع میں امن و امان کی بحالی کے ساتھ ساتھ سماجی معاشی منصوبوں کا آغاز کیا جاچکا ہے، پاک افغان اور پاک ایران سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے مربوط اقدامات کیے گئے، دہشت گردی کے خلاف کامیاب آپریشن سے سیکیورٹی کی صورتحال بہت بہتر ہوئی۔میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ بھارت کے مذموم عزائم ہوں یا پاکستان کے خلاف ہائبرڈ وارفیئر کی ایپلی کیشن، خطرات اندرونی ہوں یا بیرونی ہم نے ہمیشہ ثبوتوں اور حقائق کے ذریعے ان کی نشاندہی کی اور کامیابی سے ان کا مقابلہ کیا اور اس کو اب دنیا بھی مان رہی ہے کیونکہ سچ ہمیشہ غالب آتا ہے۔سیکیورٹی سے متعلق کیے گئے اقدامات پر انہوں نے بتایا کہ آپریشن رد الفساد میں دہشت گردوں کی سپورٹ بیس، سہولت کاروں اور غیرقانونی اسلحہ و بارود کا بڑی حد تک خاتمہ کیا گیا، پاکستان میں کوئی بھی منظم دہشت گردوں کا اسٹرکچر موجود نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ آپریشن ردالفساد کے تحت 3 لاکھ 71 ہزار سے زیادہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیے گئے، 72 ہزار سے زائد اسلحہ 50 لاکھ امیونیشن اور ساڑھے 4 سو ٹن بارود برآمد کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ کامیابی کو اگر دیکھا جائے تو 2007 اور 2008 میں قبائلی اضلاع پر صرف 37 فیصد علاقے میں ریاستی عملداری رہ چکی تھی، آج تمام قبائلی اضلاع مکمل طور پر خیبرپختونخوا کا حصہ بن چکے ہیں، دہشت گردی کے بڑے واقعات میں 2019 کی نسبت 2020 میں 45 فیصد کمی آئی، مزید یہ کہ 2013 میں سالانہ اوسطا 90 حملے تھے جو آج گھٹ کر 13 پر آ گئے ہیں۔انہوںنے کہاکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گزشتہ سال ملک بھر میں 50 فیصد سے زائد دہشت گردی کے خطرات کو ناکام بنایا، مزید یہ گزشتہ 2 دہائیوں میں دہشت گردی کے واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں میں 2013 میں یہ تعداد 414 تھا جبکہ 2020 میں یہ 98 ہے جو نمایاں کمی ہے۔میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ 2020 میں خودکش حملوں میں 97 فیصد واضح کمی آئی ہے، کراچی جو آبادی کے حساب سے دنیا کے بڑے شہروں میں 12ویں نمبر پر ہے جبکہ ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے وہ 2014 میں کرائم انڈیکس میں چھٹے نمبر پر تھا جو 2020 میں 103 نمبر پر آچکا ہے جو ترقی یافتہ ممالک کے بڑے بڑے دارالحکومتوں سے بہتر امن و امان کی صورتحال ہے۔کراچی سے متعلق انہوں نے بتایا کہ وہاں دہشتگردی میں 95 فیصد، ٹارگٹ کلنگ مین 98 فیصد، بھتہ خوری میں 99 فیصد جبکہ اغوا برائے تاوان کے واقعات میں 98 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔مغربی سرحد سے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ وہاں امن و امان کی صورتحال میں بہت بہتری لائی گئی ہے، 2611 کلومیٹر پر 83 فیصد کام مکمل کرلیا ہے جو سال کے وسط تک مکمل ہوجائے گا، اس کے علاوہ پاکستانـایران سرحد پر 37 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے اور امید ہے کہ اگلے ایک سال تک یہ بھی پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔انہوں نے کہاکہ ایک ہزار 68 پلانٹ فورٹس میں سے 482 سے زائد تعمیر کیے جاچکے ہیں، بارڈر ٹرمنل کے ذریعے نقل و حرکت میں 33 فیصد اضافہ ہوچکا ہے، اس کے علاوہ انسداد منشیات آپریشن اور نوٹیفائڈ کراسنگ سے نقل و حرکت کے نتیجے میں صرف 6 ماہ میں 48 ارب کے ریونیو میں اضافہ ہوا ہے، جس میں کسٹمز کا کردار بھی قابل ستائش ہے۔بھارت اور لائن آف کنٹرول سے متعلق انہوں نے کہا کہ مشرقی سرحد بالخصوص ایل او سی پر بھارت کی اشتعال انگیزی میں اضافہ ہوا ہے اور اس نے شہری آبادی کو نشانہ بنایا ہے، گزشتہ برس 3 ہزار 97 جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوئی جس میں 28 معصوم افراد شہید اور 257 زخمی ہوئے۔انہوں نے کہا کہ 2014 سے 2020 میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا، 2019 میں سب سے زیادہ خلاف ورزیاں ہوئی جبکہ 2018 میں سب سے زیادہ سویلین اموات 377 ہوئیں، تاہم پاکستان نے بھارتی خلاف ورزیوں کا بھرپور جواب دیا ہے جس کے نتیجے میں انہیں بھاری جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑا۔انہوں نے کہا کہ کائنیٹک خطرے کے بعد بھارت نے نان کائنیٹک ڈومین یعنی ففتھ جنریشن اور ہابرڈ وار فیئر کا سہارا لیا، اس خطرے کے حوالے سے آرمی چیف نے گاہے بگاہی بات چیت بھی کی اور وقتاً فوقتاً ہم اس سے آگاہ بھی کرتے رہے، بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی کے ثبوت ایک ڈوزیئر کی صورت میں دنیا کے سامنے لائے گئے، اس کے علاوہ حال ہی میں ای یو ڈس انفارمیشن لیب رپورٹ کے نتیجے میں ناقابل تردید شواہد سامنے آچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت کی اگر اس ڈس انفارمیشن مہم کی جانچ سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ گزشتہ 2 دہائیوں میں پاکستان اور بھارت کن معاملات میں مصروف تھے، گزشتہ 20 برسوں کے دوران پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف ایک کامیاب جنگ لڑی اور ذمہ دار ریاست ہونے کا ثبوت دیا، کائنیٹک ڈومین میں 1200 سے زائد آپریشن میں ہر قسم کی دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ کیا گیا، 18 ہزار سے زائد دہشتگردوں کا قلع قمع کیا گیا، لیگل اور لا فیئر ڈومین میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نہ صرف قانون سازی کی گئی بلکہ ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کی گئی۔ترجمان نے کہا کہ بین الاقوامی امن کی کاوشوں کے لیے 1100 سے زائد القاعدہ کے دہشت گردوں کو پکڑا یا مارا گیا، 70 سے زائد ممالک کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کی اور اس دوران پاکستان نے 83 ہزار سے زائد قربانیاں دیں اور 126 ارب ڈالر کا معاشی نقصان بھی اٹھایا۔انہوں نے کہاکہ اس کے برعکس اگر دیکھیں تو بھارت نے مشرقی سرحد پر اشتعال انگیزی میں اضافہ کیا، مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے تاریخ کا بدترین محاصرہ اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں جاری ہیں جبکہ فروری 2019 میں پاکستان کے خلاف جارحیت کی ناکام کوشش بھی کی، ان تمام واقعات کے شواہد عالمی اداروں نے دنیا کے سامنے رکھ دیے۔