کرونا وائرس،لاک ڈائون سے دوکروڑ سے زائد لوگ بیروزگار ہوئے، اسد عمر

0
318

اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے نتیجے میں لگائے گئے لاک ڈائون کے نتیجے میں دو کروڑ سے زائد لوگ بے روزگار ہو گئے تھے۔میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ جس وقت کورونا آیا اور لاک ڈائون کا فیصلہ کرتے ہوئے زیادہ تر کاروباری سرگرمیوں پر بندشیں لگ گئیں اس کا اثر یہ پڑا کہ دو کروڑ سے زائد لوگوں کا روزگار چھن گیا۔انہوں نے کہا کہ 27مارچ کو این سی او سی بنی تھی،پانچ اپریل کو پورا آرگنائزیشن کا اسٹرکچر ہم نے بنا لیا تھا جس میں اہداف پر مبنی لاک ڈان کی حکمت عملی بنائی گئی، ٹیسٹنگ، ٹریکنگ اور قرنطینہ کا نظام 10 اپریل کو شروع ہوگیا تھا اور 24 اپریل مکمل ٹی ٹی کیو آپریشن پاکستان میں شروع کردیا گیا تھا جس کی مدد سے 12مئی کو ٹیکنالوجی کی مدد سے لاک ڈان کیے گئے۔انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں ”وی”شکل کی بحالی ہوئی اور تقریبا ًتمام لوگ اکتوبر تک روزگار تک واپس آ چکے تھے اور نومبر دسمبر میں تعمیرات کی سرگرمیوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے، بڑی صنعتوں کی ترقی کی رفتار میں تیزی آئی ہے،اگر اس کا موازنہ آپ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت سے کریں تو کروڑوں لوگ بیروزگار ہو گئے اور دنیا کے طاقتور اور امیر ترین ملکوں میں ہم نے دیکھا کہ کروڑوں اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، یہی وجہ ہے کہ باراک اوباما کے چیف معاشی آفیسر نے کہا کہ اگر امریکا پاکستان کی طرح کورونا کی وبا سے مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوتا تو امریکا دس کھرب کے نقصان سے بچ سکتا تھا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ بے روزگار ہونے والے دو کروڑ لوگوں میں سے 29فیصد دیہاڑی دار افراد تھے جن کی نوکری اس نوعیت کی ہوتی ہے کہ اس دن وہ کام پر آتے ہیں تو ان کو پیسہ ملتا ہے، اس کے علاوہ جو خود کام کرتے ہیں مثلا ًٹھیلا لگاتے ہیں، چھوٹا کھوکھا ہے اور جن کا شمار غریب لوگوں میں ہوتا ہے تو ایسے لوگوں کی تعداد بھی 30فیصد ہے جو اس دوران روزگار سے محروم ہو گئے۔انہوں نے کہا کہ دو تہائی سے زیادہ تو وہ لوگ بنے جو دیہاڑی دار لوگ ہیں، اس دن اگر ان کا کاروبار نہ ہو تو ان کو کچھ مل نہیں سکتا اور یہی وجہ تھی کہ وزیر اعظم بار بار اس بات کو دہراتے تھے کہ ہم اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ مکمل طور پر اس بات کو نظرانداز کر کے سب کچھ بند کردیں۔اسدعمر نے کہا کہ بے روزگار ہونے والوں میں سے ایک چوتھائی کا تعلق صنعت سے ہو گا، 20فیصد تعمیرات کی صنعت سے منسلک تھے اور اگر ان دونوں کو جوڑ دیا جائے تو 46فیصد بنتا ہے، یعنی ایک کروڑ افراد ان دو شعبوں سے تعلق رکھتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ جب ہم فیصلے کررہے تھے تو ہم نے سب سے پہلے صنعتوں اور تعمیرات کے شعبے کو کھولا تھا اور سب سے زیادہ جہاں مشکل نظر آرہی تھی، ہم نے ان شعبوں کو کھولا۔انہوں نے کہاکہ تعمیرات کے شعبے میں روزانہ کی بنیاد پر کمانے والے 80 فیصد مزدوروں کا کاروبار بند ہو گیا تھا، اگر یہ تعمیرات کا شعبہ کولنے کا فیصلہ نہ کیا جاتا تو کیا ہوتا کیونکہ اس شعبے میں محنت کرنا والے ہر پانچ میں سے چار افراد اپنا روزگار کھو بیٹھا تھا۔انہوں نے کہا کہ صنعتوں میں 72فیصد لوگ روزگار سے محروم ہو گئے تھے یعنی ہر چار میں سے تین بے روزگار ہو گئے، اسی طریقے سے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ملازمت کرنے والے 67فیصد افراد کی ملازمت ختم ہو گئی تھی، ان شعبوں کو اس لیے کھولنا ضروری تھا۔انہوں نے کہاکہ 54فیصد لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ دیگر چیزوں کی خریداری کم کردی لیکن 50فیصد افراد نے نسبتاً سستی چیز کھانی شروع کردی یا کم خریدنا شروع کردیا۔انہوں نے کہا کہ 47فیصد افراد کو اس دوران اپنی جمع پونجی استعمال کرنی پڑی یا اپنے چھوٹے موٹے اثاثوں کو بیچنا پڑ گیا جبکہ 30فیصد افراد نے اپنے رشتے داروں اور دوستوں سے قرض لے کر گزارا کیا۔