سب کچھ ختم ہو گیا ‘افغانستان کی مڈل کلاس بھی غربت اور بھوک کا شکار

0
225

کابل (این این آئی)زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب فرشتہ سلیہی اور ان کا خاندان اچھی زندگی گزار رہا تھا۔ ان کے شوہر کی تنخواہ بہتر تھی اور وہ اپنے بچوں کو سکول بھیج سکتی تھیں۔تاہم طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کے شوہر کی نوکری چلی گئی اور اب وہ بھی سینکڑوں دیگر افغان شہریوں کی طرح اقوام متحدہ کے ادارے کی طرف سے دی جانے والی خوراک اور رقم حاصل کرنے کے لیے رجسٹریشن کروانے کے لیے لائن میں کھڑی ہیں۔فرشتہ سلیہی لائن میں اس لیے کھڑی ہیں کیونکہ ان کے خاندان کو زندہ رہنے کے لیے اس خوراک اور رقم کی بہت اشد ضرورت ہے۔ رجسٹریشن مکمل ہونے کے بعد نیوز ایجنسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ہمارا سب کچھ چلا گیا۔ ہمارا بہت برا حال ہے۔ان کے ساتھ ان کی ایک 17 سالہ بیٹی فاطمہ بھی تھیں جن کو سکول سے نکالنا پڑا جس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس بچی کو نجی سکول بھیجنے کی فیس نہیں تھی اور طالبان بھی نوجوان لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ‘میں اپنے لیے کچھ نہیں چاہتی۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے بچوں کو اچھی تعلیم ملے۔طالبان کے قبضے کے کچھ ہی مہینوں میں فرشتہ سلیہی کی طرح کی مڈل کلاس اور معاشی طور پر مستحکم فیملیز اب سڑکوں پر آ گئی ہیں اور انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کے اگلے کھانے کا بندوبست کیسے ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ خوراک نہ ہونے کی وجہ سے بڑھتی بھوک کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تین کروڑ 80 لاکھ کی آبادی میں سے 22 فیصد پہلے ہی قحط سالی کے قریب ہیں اور دیگر 36 فیصد کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے۔افغانستان کی معاشی حالت امریکہ کی حمایت سے چلنے والی سابق حکومت کے وقت بھی خراب تھی اور وہ اکثر ملازمین کو تنخواہ نہیں دے سکتی تھی۔ یہ صورتحال کورونا کی وبا اور قحط سالی کے باعث بڑھنے والی قیمتوں کی وجہ سے ابتر ہو گئی ہے۔ اس سے قبل 2020 میں افغانستان کی آدھی آبادی غربت کی زندگی گزار رہی تھی۔رہی سہی کسر طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بند ہونے والی عالمی امداد کی بندش نے نکال دی اور مڈل کلاس خاندانوں کے لیے مشکلات کھڑی ہو گئیں۔سابق افغان حکومت کے بجٹ کا زیادہ حصہ عالمی امداد سے پورا ہوتا تھا اور اس کے بغیر طالبان بھی دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔