اسلام آباد (این این آئی) جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہاہے کہ بچپن میں پہاڑوں پر بکریاں چرائیں ، بچپن میں فارغ ہوتا تھا تو کھیلتے کودتے تھے ،ہم لوگ بھی کھلاڑی تھے ،میرے والد راولپنڈی میں تانگہ پر بیٹھ کر اسمبلی کے اجلاس میں جایا کرتے تھے ، اونٹ اور رکشے پر بھی سفر کیا ہے ، اونٹ کی سواری مزے دار ہے ،ورارثت کی سیاست کا لفظ یورپ کا پیدا کردہ ہے اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ،سب سے اچھا مطالعہ کا وقت جیل میںملتا ہے جس کا بھرپور فائدہ بھی اٹھایا ، جیل پسند کر نے کی خواہش ٹھیک نہیں،آزمائش کی طلب نہیں کرنی چاہیے ۔ ایک انٹرویومیں مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ اگر سیاستدان نہ ہوتا تو ایک دینی مدرسے کا مدرس ہوتا ، اللہ تعالیٰ اپنا فضل وکرم فرمائے ایک اچھا مدرس ہوتا ۔ایک سوال پر انہوںنے بتایاکہ 1972سے 1979تک آٹھ سال اکوڑہ خٹک میں پڑھا ہوں اور وہاں کی اینٹ اینٹ سے میری مناسبت ہے اور میرے دل و دماغ میں اس کا تقدس ہے ۔ ایک سوال پر انہوںنے کہاکہ مولانا سمیع الحق اور ہم اکٹھے چلے ہیں ،اگر ہمارے درمیان کسی زمانے میں جماعت میں اختلاف آبھی گیا ہے تو ہم نے آنا جانانہیں روکا اور نہ ہی ایک دوسرے تعلق ختم کیا ،نہ طنزو مزاح اور نہ ہی محبت اور نہ ہی احترام کا روشہ ٹوٹا ہے ۔ ایک سوا ل پر انہوںنے کہاکہ ورارثت کی سیاست کا لفظ یورپ کا پیدا کردہ ہے ،وہاں پر ایک سربراہ جاتا ہے تو اس کا بیٹا آجاتا ہے ، ایک سربراہ جاتا ہے اس کا بھائی آجاتا ہے ، ایک سربراہ جاتا ہے تو اس کی اہلیہ آجاتی ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہندوستان میں نہرو خاندان کا اپنا ایک مقام تھا اس کی ایک حیثیت ہے ،جمعیت علمائے اسلام میں مولانا مدنی کا ایک مقام تھا اور ان کے خاندان کا آج بھی مقام ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انبیاء اکرام کا منصب اعلیٰ ترین منصب ہے جس کو اللہ تعالیٰ خود طے کرتا ہے اور نبی کریم ۖسے لیکر مسلسل پانچ نسلیں نبی ابن نبی ابن نبی ، نبی ابن نبی ”اس کا معنی یہ ہے کہ موروثیت کا جو لفظ ہے اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے ، یہاں دو چیزیں اکٹھی ہوتی ہیں ایک خونی رشتے کی نسبت اور ایک فکری نسبت ہے اور دونوں اکٹھی جاتی ہیں ، جب دونوں اکٹھی ہو جاتی ہیں تو پھر عوام کا اس خاندان پر کیا گیا اعتماد چلتا رہتا ہے ورنہ ہم نے بہت خاندان دیکھے ہیں جس وقت وہ نظریاتی فکر اور تسلسل باقی نہیںرہتا ہے وہ تحلیل ہو جاتے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ یہاں پر کوئی مورثیت نہیں ہے ،میرے سب سے پہلے امیر حضرت مولانا احمد لاہور تھے اور میرے دوسرے امیر حضرت مولانا عبد اللہ درخواستی تھے ،بیچ میں میرے دوسرے امیر بنے اور اب میں امیر بنا ہوں تو اس میں مورثیت کہاں سے آگئی، اگر ایک خاندان پر لوگوں اور ورکرز کا اعتماد ہوتا ہے تو آپ جبری طورپر ان کے اعتماد پر پابندی نہیں لگا سکتے ہیں اگر اس میں کوئی شرعی ممانعت ہوتی تو پھر آپ اس کو رد کرتے ہیں اگر شرعی رکاوٹ نہیں ہے تو پھر مغرب کے تصور کو نہ دیکھیں ۔ایک سوال پر انہوںنے کہاکہ ہر زمانے کی اپنی سہولتیں ہوتی ہیں ، کسی زمانے میں تانگہ آخری سہولت تھی ، میں بھی تانگہ میں سفر کرتا تھا ، ڈیرہ اسماعیل میں رکشہ ہوتے تھے اور ہم بھی رکشہ پر سواری کرتے تھے ، کسی زمان میں اونٹ پر سواری ہوتی تھی اور میں اونٹ کا زبر دست سوار ہوں ،میلوں کے میل اونٹوں پر سفر کیا کرتے تھے ، میں نے خود پہاڑوں پر بکریاں چڑائی ہیں ، بکریوں کیلئے گھاس اکٹھا کر کے سر پررکھ کر گھر لاتا تھا ، یہ سارے دور دیکھے ہیں اور وہاں سے زندگی دیکھی ہے ۔مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ آج دنیا بہت آگے جا چکی ہے ، وہ سہولیتیں جو ماضی میں نہیں تھیں وہ آج موجود ہیں ، اگر کوئی سہولت بغیر لالچ بلا طلب آپ کو ملتی ہے تواسے اللہ کی نعتوں میں شمار کر کے شکر ادا کر نا چاہیے اور یقین ہونا چاہیے یہ عارضی فائدے ہیں اور حتمی نعمتیں آخرت میں ہونگی