لمپی اسکن وبا سے نمٹنے کیلئے حکومت کو 3 کروڑ ڈالر قرض ملنے کا امکان

0
216

نیویارک (این این آئی)ورلڈ بینک کی جانب سے پاکستان کے لیے 3 کروڑ ڈالر قرض ملنے کا امکان ہے تاکہ چند ماہ قبل موشیوں پر حملہ آور ہونے والی لمپی اسکن کی بیماری پر قابو پانے کے لیے ایک جامع پروگرام شروع کیا جا سکے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق وزارت غذائی تحفظ و تحقیق کے ایک عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ ورلڈ بینک نے حکومت کی جانب سے 20 کروڑ ڈالر کے قرض کے لیے غیر تقسیم شدہ فنڈز استعمال کرنے کی درخواست پر اتفاق کیا جو ٹڈی دل کے کنٹرول کے منصوبے کے لیے منظور کیا گیا تھا۔ٹڈی دل پر قابو میں پا لیا جا چکا ہے اور مستقبل قریب میں ایسا کوئی خطرہ نہیں اس لیے حکومت نے عالمی بینک سے درخواست کی کہ وہ یہ فنڈز لمپی اسکن کی بیماری کیکنٹرول پروگرام کے لیے استعمال کرے۔عہدیدار کے مطابق اس حوالے سے عالمی بینک کے ساتھ بات چیت پیشگی مراحل میں ہے اور اس پراجیکٹ کی ایک باضابطہ دستاویز جلد ہی ورلڈ بینک کے ساتھ شیئر کی جائے گی جس میں مویشیوں میں پھیلنے والی لمپی اسکن کی بیماری سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لیا جا چکا ہے۔عہدیدار نے بتایا کہ وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ نے لائیو اسٹاک میں لمپی اسکن کی بیماری کے پھیلاؤ سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کرنے کے لیے وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کو ایک سمری بھیجی ہے۔وزارت غذائی تحفظ و تحقیق نے وزارت خزانہ سے ویکسین کی خریداری کے لیے ہنگامی بنیادوں پر 70 کروڑ روپے کی منظوری دینے کی بھی درخواست کی ہے۔اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں لمپی اسکن کے سب سے زیادہ کیسز سندھ میں رپورٹ ہوئے ہیں اور اس کے بعد خیبرپختونخوا، پنجاب اور بلوچستان میں رپورٹ ہوئے ہیں، تاہم متاثرہ جانوروں کی صحتیابی کی شرح بھی کافی حوصلہ افزا ہے۔پاکستان میں کْل 4 کروڑ 15 لاکھ 50 ہزار 921 مویشی ہیں جس میں سے ایک لاکھ 52 ہزار 270 کیسز رپورٹ ہوئے، ایک لاکھ 18 ہزار 765 جانور اس مرض سے صحتیاب ہوچکے ہیں جبکہ اب تک 4 ہزار 81 مویشی لمپی اسکن کی بیماری سے مر چکے ہیں۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اب تک 6 کروڑ 86 لاکھ 659 مویشیوں کو ٹیکے لگائے جا چکے ہیں، اموات کی شرح 0.0098 فیصد اور بیماری کی شرح 0.366 فیصد ہے۔سندھ میں 53 ہزار 668، خیبرپختونخوا میں 46 ہزار 343، پنجاب میں 23 ہزار 683، بلوچستان میں 22 ہزار 225 اور آزاد جموں و کشمیر میں 6 ہزار 351 کیسز سامنے آئے، گلگت بلتستان میں لمپی اسکن کے پھیلائوکا ڈیٹا دستیاب نہیں ہے