اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے سیلاب کو بڑی ماحولیاتی آفت اور انسانی بحران قرار دیتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ گلوبل وارمنگ کی تباہ کاریوں سے شدید متاثر ہونے والے پاکستان کی فوری امداد کرے،حالیہ تاریخ میں دنیا کے اندر سب سے بڑی موسمیاتی تبدیلی المیہ ہے جس کا پاکستان کو سامنا ہے،حکومت کا کوئی ادارہ یا کوئی وفاقی یا صوبائی حکومت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی،پوری قوم نے مل کر آفت کا مقابلہ کرنا ہے۔اسلام آباد میں نیشنل فلڈ رسپانس کوآرڈینیشن سینٹر میں سیلاب کی صورتحال پر پہلا باضابطہ اجلاس منعقد ہوا، اجلاس کے دوران سیلابی صورتحال کا جائزہ لیا گیا، اجلاس میں وفاقی وزیر احسن اقبال، ڈی جی آئی ایس پی آر، چیئرمین این ڈی ایم اے سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی۔اجلاس کے دوران سیلاب کی تازہ صورتحال اور متاثرہ افراد تک رسائی کی کوششوں پر بریفنگ دی گئی۔اس موقع پر سیلاب متاثرہ علاقوں میں مواصلاتی ڈھانچے کی بحالی کیلئے اقدامات کا بھی جائزہ لیا گیا۔نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈی نیشن سینٹر میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار اور چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہاکہ رواں سال مون سون سیزن کے دوران پاکستان کی تاریخ کا بد ترین سیلاب آیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کوحالیہ تاریخ میں دنیا میں سب سے بڑی موسمیاتی آفت اور نقصان کا سامنا ہے جس میں 3کروڑ 30 لاکھ آبادی سیلاب سے شدید متاثر ہوئی ہے۔انہوںنے کہاکہ حالیہ تاریخ میں دنیا کے اندر سب سے بڑی موسمیاتی تبدیلی المیہ ہے جس کا پاکستان کو سامنا ہے، جن علاقوں میں اس وقت طوفانی بارشیں ہوئی ہیں وہاں سب سے کم بارشیں ہوتی تھیں، یہ ہماری 30 سال کی اوسط میں 500 گنا زیادہ بارشیں تھیں۔انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجہ میں 3 کروڑ 30 لاکھ کی آبادی متاثر ہوئی ، اس نقصان کا پیمانہ بہت بڑا ہے، امریکا اور جاپان اس طرح کی قدرتی آفات کے سامنے بے بس نظر آئے، پاکستان میں اس المیے کا پیمانہ حکومت اور وسائل کے مقابلے میں بہت بڑا ہے تاہم ہمارا عزم چٹان کی طرح مضبوط ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سے قبل 2005 میں زلزلہ اور سیلاب میں ہماری قوم نے ثابت کیا کہ کہ وہ مل کر اس کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوئے اور ان کا جذبہ متاثر نہیں ہوا۔انہوںنے کہاکہ حکومت کا کوئی ادارہ یا کوئی وفاقی یا صوبائی حکومت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی، اس کے لیے پوری قوم نے مل کرمقابلہ کرنا ہے۔انہوں نے بتایا کہ کچھ علاقوں میں بارش 1500 ملی میٹر تک ہوئی جہاں یہ بارش معمول کے مطابق 15 یا 20 ملی میٹر تک ہوتی تھی، زیادہ بارش کے سندھ اور بلوچستان میں برے اثرات مرتب ہوئے ، اس کے علاوہ جنوبی پنجاب ، گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا اور کشمیر کے کچھ علاقے بھی متاثر ہوئے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت جو تباہی ہوئی اس کی بڑی وجہ تیز بارش اور طغیانی تھی، انفراسٹرکچر کا نظام بلوچستان میں بڑی تعداد میں تباہ ہوا ہے، ملک سے بلوچستان کو جوڑنے والی 14 بڑی شاہراہیں جن کا ملکی معیشت میں بڑا کردار ہے وہ متاثر تھیں تاہم ان میں سے این ایچ اے کی کاوشوں سے اور مسلح افواج کے انجینئرز نے 11 کو بحال کردیا ہے صرف 3 ہائی ویز پر جزوی بلاک ہیں ان کی بحالی کیلئے دن رات کام ہو رہا ہے جو چند دنوں میں بحال ہو جائیں گی۔انہوں نے بتایا کہ سندھ میں پانی آہستہ آہستہ اتر رہا ہے، یہاں علاقے سمندر کا منظر پیش کر رہے ہیں