کشمیر اور فلسطین کے مسائل حل نہ کئے گئے تو انتہا پسندی آنے والی صدیوں میں بھی ختم نہیں ہو گی،نگران وزیراعظم

0
285

اسلام آباد (این این آئی)نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ کشمیر اور فلسطین کے مسائل حل نہ کئے گئے تو انتہا پسندی آنے والی صدیوں میں بھی ختم نہیں ہو گی،گورننس کیڈھانچے، سیاست ، معیشت سمیت اہم قومی معاملات پر پردیانتدارانہ قومی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، صحت مند اور خوشحال معاشرے کی تشکیل کیلئے قومی ڈائیلاگ کے حوالے سے پارلیمان قائدانہ کردار ادا کر سکتی ہے، لاپتہ افراد کے حوالے سے پاکستان میں کمیشن کی تشکیل اہم اقدام ہے،سویلین بالادستی کے نعرے بلند کرنے والوں کو اس حوالے سے قانون سازی بھی کرنی چاہیے،مہنگائی پر قابو پانے کے لئے وفاق صوبوں کیساتھ مل کر اقدامات اٹھا رہاہے جس کے مثبت نتائج برآمد ہونا شرو ع ہو گئے ہیں، پاکستان کے مستقبل کے بارے میں بہت پر امید ہوں۔ڈیجیٹل میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان کو اس وقت معاشی، سیاسی اور دیگر چیلنجز درپیش ہیں لہذا اس حوالے سے بحیثیت قوم ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے اس امرپر زور دیا کہ گورننس کے سٹرکچر ، سیاسی رویہ ، مذہب اور سیاست ، معیشت اور سیاست اور عدلیہ کے نظام سمیت دیگر امور پردیانتدارانہ اور کھلے قومی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے،اس ضمن میں پارلیمان قائدانہ کردار ادا کرسکتی ہے۔، توقع ہے کہ آنے والی پارلیمان اس پر کام کرے گی تاکہ ایک صحت مند اور خوشحال معاشرے کی طرف پیش قدمی کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں کسی قسم کی بنیاد پرستی یا انتہا پسندانہ رویئے کی کوئی گنجائش نہیں جو بھی ایسا کریگا، ریاست اس کے خلاف کارروائی کرے گی۔ مہنگائی کے حوالے سے انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ اس کے اسباب کیا ہیں۔ یہاں گندم سمیت اجناس وافر مقدار میں دستیاب ہیں تاہم ذخیرہ اندوزی کا مسئلہ سامنے آرہا ہے ، اس کے خلاف کارروائی شروع کی تو چینی کی قیمتیں کم ہوئیں ، یہ کام ضلعی حکومتوں کا ہے تاہم وفاق صوبوں کے ساتھ مل کر اقدامات اٹھا رہاہے جس کے مثبت نتائج برآمد ہونا شرو ع ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے پلیٹ فارم سے سعودی عرب ، متحدہ امارات سمیت دنیا بھر سے معدنیات ، آئی ٹی سمیت دیگر شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے ، اس حوالے سے دسمبرمیں اہم خبریں آسکتی ہیں۔غیرقانونی تارکین وطن کے انخلا کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو نکالنے کی قطعی طورپر کوئی بات نہیں کی گئی، ا س بارے میں تاثر بالکل غلط ہے، دوسری کیٹیگری وہ غیرقانونی غیر ملکی ہیں جن کے پاس پاسپورٹ اور ویزے سمیت کوئی قانونی دستاویز نہیں ہے اور معاشرے میں ان کا کردار مبہم ہے اور وہ ہمارے نظام میں نہیں ہیں اور بحیثیت ریاست ہم چاہتے ہیں کہ انہیں واپس جانا چاہیے۔ ان کا یہاں رہنے کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہیں ہے،دنیا کی کوئی ریاست ان کو نکالنے کو غیر قانونی یا غیر اخلاقی نہیں سمجھتی تاہم ہم چاہتے ہیں کہ ایسے غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی کے عمل میں ان کی عزت نفس مجروح نہیں ہونی چاہیے۔انہوںنے کہاکہ تیسری کیٹیگری ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے ہمارے معاشرے کے خاندانوں میں شامل ہو کر جعلی دستاویزات بنوا لی،اس میں بھی نظام کا غلط استعمال ہوا ہے اور اس کو بھی ختم کرنا ہے اور ایسے لوگوں کی جانچ پڑتال کرنی ہے،اس میں کسی بھی مخصوص آبادی کو ہدف نہیں بنایا جائے گا۔ انہوں نے یقین دلایا کہ پاکستانی نڑاد پشتونوں کے بنیادی شہری حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، ڈی این اے ٹیسٹ سے کسی بھی خاندان کی فیملی ٹری میں کسی دوسرے فرد کی شناخت ہو سکے گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے مستقبل سے مایوس نہیں ہیں بلکہ بہت پرامید ہیں ، سعودی عرب میں15سے 20لاکھ ہنر مند پاکستانیوں کی کھپت کے مواقع موجود ہیں جبکہ پاکستان سے افرادی قوت ان کی ترجیح ہے اس کے لئے ہنر مند افرادی قوت کی تیاری پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں ، ملک بھر میں قائم ووکیشنل ٹریننگ اداروں کا ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں ، اس بارے میں اس ہفتے اہم اجلاس ہو گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ عمران خان کی رہائی کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے اگر عدالت انہیں آزاد کرتی ہے تو وہ سیاسی عمل کا حصہ ہوں گے۔ عدالتیں جو بھی فیصلہ کریں گی نگران حکومت اس پر عملدرآمد کی پابند ہو گی۔ نگران وزیراعظم نے لاپتہ افراد کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے پاکستان میں کمیشن کی تشکیل اہم اقدام ہے، کسی فرد کو زیر حراست رکھے جانے کے حوالے سے مدت کے تعین سمیت دیگر ایسے امور پر بدقسمتی سے سنجیدہ قانون سازی نہیں ہوئی یہ کام پارلیمان نے کرنا تھا ، پاکستان ایک عرصہ سے دہشتگردی کا شکار ہے ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 90 ہزار پاکستانی شہید ہوئے، ہمیں مختلف پرتشدد چیلنجز کا سامنا ہے تاہم اس حوالے سے لیگل فریم ورک نہیں لایا جا سکا۔ نگران وزیراعظم نے کہاکہ پراپیگنڈا کی صورت میں ریاست کی بدنامی کا سبب بننا اچھا عمل نہیں۔ انہوں نے کہاکہ سویلین بالادستی کے نعرے بلند کرنے والوں کو اس حوالے سے قانون سازی بھی کرنی چاہیے ، قومی دھارے کی کسی جماعت نے اس کو اپنے منشور کا حصہ نہیں بنایا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پاکستان میں قانون سازی کا معیار نسبتاً کمزور ہے۔