سپریم کورٹ نے ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ کرانے کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دی

0
211

اسلام آباد (این این آئی)چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کے کیس کی سماعت کے دوران نگران حکومت پر سوالات اٹھادئیے۔چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے درخواست پرسماعت کی۔وکیل شاہ خاور نے کہا کہ اب اس درخواست کی ضرورت نہیں رہی، گزشتہ عدالت پہلے ہی یہ معاملہ اٹھا چکی ہے، یہ اس وقت ہم نے ایک کوشش کی تھی، اس وقت عدالت نے 14 مئی کو انتخابات کا آرڈر دیا تھا، اس وقت سپریم کورٹ نے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانیکا حکم جاری کیا تھا، پھر ہم نے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرانیکی درخواست دائر کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہی تو سارا جھگڑا ہے،کیا اس وقت کوئی آرڈر آف دی کورٹ جاری ہوا تھا؟ وکیل شاہ خاور نے کہاکہ چار آرڈر آف دی کورٹ جاری ہوئے تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کسی مقدمے پر مختلف رائے ہو تو ایک آرڈر آف دی کورٹ جاری ہوتا ہے۔ وکیل شاہ خاور کا کہنا تھا کہ اس طرح کا آرڈر آف دی کورٹ نہیں ہوا تھا۔جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ آپ کو تو 14 مئی انتخابات کے سپریم کورٹ آرڈر کی خلاف ورزی کی درخواست دائر کرنا چاہیے تھی، آپ نے یہ درخواست دائرکرکے آئین کی خلاف ورزی کی کوشش نہیں کی؟چیف جسٹس نے کہا کہ کس شخص نے سپریم کورٹ کے 14 مئی کو انتخابات کرانے کے حکم کی خلاف ورزی کی؟ الیکشن کا فیصلہ دینے والے بینچ کا آرڈر آف دی کورٹ کہاں ہے؟ آرڈر وہ ہوتا ہے جس پر سب ججز کے دستخط ہوں۔فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ 14 مئی کے الیکشن کا فیصلہ دینے والا آرڈرآف دی کورٹ موجود ہی نہیں، 14 مئی کوانتخابات کا حکم دے کر 90 دن کی آئینی مدت کی خود عدالت نے بھی خلاف ورزی کی، عدالت نے 14 مئی کا آرڈر دیا وہ 90 دن سے باہر تھا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ یہی تو سمجھ نہیں آرہی کہ انتخابات کرانے کا کیا آرڈر تھا؟ یہ وہی کیس ہے نا جس میں بہت سے ججز نے اپنا اپنا آرڈر لکھا۔ دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے نگران حکومت پر سوالات اٹھادیے۔انہوں نے فاروق ایچ نائیک سے سوال کیا کہ یہ بتائیں نگران حکومت کس کی ایجاد تھی؟فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 1985 میں ضیاالحق آئینی تجدید کے آرڈر کے ذریعے نگران حکومت کا تصور لائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ضیاء الحق نے تو اپنے ہی آئینی تجدید کے حکم کی جونیجو صاحب کو ہٹا کر خلاف ورزی کی، 1990 اور 2002 کے انتخابات نگران حکومتوں کے بغیر بھی ہوئے، نگران حکومتوں کا کام کیا ہوتا ہے؟ شفاف الیکشن کاکام تو الیکشن کمیشن کا ہے، صاف شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کوکراناہیں تو نگران حکومت کیوں بنائی جاتی ہے؟ الیکشن کمیشن کا پھر کیا کام ہے؟ چلیں خیر یہ دیکھنا پارلیمنٹ کا کام ہے، ہم تو تشریح ہی کرسکتیہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نگران حکومت کا مقصد مجھے سمجھ نہیں آتا لیکن اس سسٹم کے تحت ہم چل رہے ہیں، سوال یہ اٹھتا ہے کیا انتخابات سے بالکل پہلے صوبائی اسمبلیاں توڑنے پر قدغن ہے؟ آئین کے تحت تو وزیراعلیٰ کا اختیار ہے کہ اسمبلی پہلے دن تحلیل کرے یا آخری دن، پارلیمنٹ کو دیکھنا چاہیے کہ وقت سے پہلے اسمبلی توڑنے سے ملک کو مالی مسائل درپیش ہوتے ہیں۔عدالت نے ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ کرانے کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دی۔