اقوام متحدہ ٹی ٹی پی کے سرحد پار حملوں میں جدید ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات کرائے ، پاکستان

0
180

نیویارک (این این آئی)پاکستان نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تحقیقات کرائے کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے پاکستان کے خلاف سرحد پارحملوں میں استعمال ہونے والے جدید ہتھیار کیسے حاصل کیے گئے؟ ،ٹی ٹی پی کو ہمارے اصل مخالف کی حمایت حاصل ہے، افغانستان میں امن پاکستان کے لیے سٹریٹجک ناگزیر ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے سلامتی کونسل میں افغانستان کی صورت حال پر بحث کے دوران بھارت کے حوالے سے واضح طور پر کہا کہ ہمارے پاس اس بات کے بھی واضح ثبوت ہیں کہ ٹی ٹی پی کو ہمارے اصل مخالف کی حمایت حاصل ہے، پاکستانی مندوب نے کہا کہ ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ تنظیمیں پاکستان کی سرزمین پر سرحد پار منظم دہشت گردحملوں میں ملوث ہیں،اس گروپ کے پاس غیر ملکی افواج کے چھوڑے گئے ہتھیاروں تک رسائی ہے جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی نے ان ہتھیاروں کیسے رسائی حاصل کی، اس سلسلے میں انہوں نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ چاہے وہ یو این اے ایم اے ہو یا کوئی اور ایجنسی اس بات کی مکمل تحقیقات کرے کہ یہ ہتھیار ٹی ٹی پی کے ہاتھ میں کیسے آئے اور ان کی واپسی کے طریقوں کی نشاندہی کی جائے۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ اگرچہ افغانستان کی عبوری حکومت نے داعش کے خلاف جنگ میں کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت سے دہشت گرد گروہ افغانستان میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صرف رواں سال ان حملوں میں سینکڑوں فوجی اور شہری شہید ہوئے ہیں اور گزشتہ ہفتے، ٹی ٹی پی سیوابستہ گروپ نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ہمارے سکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں 23 سے زائد قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن پاکستان کے لیے سٹریٹجک ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن و امان اور استحکام کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، داعش کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے اور کرپشن میں کمی آئی ہے۔ پاکستانی مندوب نے خواتین اور لڑکیوں کے تعلیم کے حق پر پابندیوں کے خاتمے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کچھ حقیقت پسندانہ اقدامات ممکن ہیں اور پاکستان ایسے ممکنہ حل تیار کرنے کے لیے کام جاری رکھے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کے لیے اہم راستہ رہا ہے، انہوں نے کہا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی منصوبہ فنڈزکی کمی کے مسائل سے دوچار ہے جو 35 فیصد سے بھی کم ہیں۔ انہوں نے تمام ڈونر ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ امداد کی فراہمی میں فراخدلی کا مظاہرہ کریں۔پاکستانی مندوب نے رقوم کی غیر قانونی ترسیل اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف اقدامات نہ کرنے اور ایک کمزور بینکنگ نظام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس حوالے علاقائی رابطوں کے منصوبوں کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کے لیے 40 سال کی میزبانی کی بہت بڑی قیمت ادا کی ہے،پاکستان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے جس میں بین الاقوامی برادری کی طرف سے بہت کم یا برائے نام تعاون کیا گیا۔منیر اکرم نے کہا کہ چونکہ افغانستان کی عبوری حکومت کا دعویٰ ہے کہ امن بحال ہو گیا ہے، اسے ان پناہ گزینوں کی جلد وطن واپسی کا بندوبست کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔انہوں نے پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں غیر کی وطن واپسی کو پاکستان کے جائز معاشی اور سماجی خدشات سے پیدا ہونے والی ایک ناگزیر مجبوری قرار دیتے ہوئیکہا کہ اس پر جتنا ممکن ہوسکے انسانی ہمدردی کے تقاضوں کے مطابق عمل کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ ہم نے ان لوگوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے جن کے پاس رجسٹریشن کا ثبوت ہے،ان لوگوں کے لیے جن کے پاس افغان شہریت کا کارڈ ہے اور اب ان لوگوں کے لیے بھی جو مختلف مسائل کا شکار ہیں اور یہ 60ہزار یا اس سے زیادہ کے علاوہ ہیں جو افغانستان کے علاوہ دیگر ممالک میں منتقل ہونے کے لیے دو سال سے انتظار کر رہے ہیں۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ ہم ان ممالک پر زور دیتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کو قبول کرنے کے لیے اپنے اقدامات میں تیزی لائیں اور پاکستان پر بوجھ کو کم کریں۔انہوں نے کہا کہ افغان حکام کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت کو دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے کے اقدامات سمیت متعدد معاملات پر اس کے ردعمل پر مبنی ہونا چاہیے۔ بصورت دیگر افغانستان سے دہشت گردی کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو گا جس سے نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کو خطرہ ہے