اسلام آباد (این این آئی)سابق جج اسلام آباد ہائی کورٹ شوکت عزیز صدیقی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ایک خاص مقصد کے لیے کرنے والی اس وقت کی عدلیہ، حساس اداروں میں موجود افسران کی شکست ہوئی ہے۔ایک انٹرویومیں سابق جج نے کہا کہ فیصلے پر جج صاحبان، میڈیا اور اپنی قانونی کمیونٹی کا شکار گزار ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے یہ فیصلہ ہوا، فیصلے سے مطمئن ہوں۔انہوںنے کہاکہ اس فیصلے سے صرف ان لوگوں کی ہار نہیں ہوئی جو یہ سب کچھ مینیج کر رہے تھے، بلکہ اس وقت کی عدلیہ، حساس اداروں میں موجود گٹھ جوڑ کے ساتھ ایک خاص مقصد کے لیے یہ کام کرنے والے افسران کی بھی ہار ہوئی ہے۔شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ جن لوگوں نے ساری زندگی قانونی شعبے میں گزاری ہو اور انہیں بنیادی انصاف کے تقاضے بھی پتا نہ ہوں، انہوں نے مجھے انصاف نے محروم کیا، ان کے اپنے مقاصد تھے، فیصلے سے ان کی بھی شکست ہوئی ہے، اس وقت کی اعلیٰ عدلیہ کی شخصیات یا چاہے وہ آرمی کی تھی، دونوں کی شکست ہوئی ہے۔سابق جج اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ میں نے 21 جولائی 2018 کو تقریر کی اور 22 جولائی کو اس وقت کے چیف جسٹس کو خط لکھا اور کہا کہ میرے الزامات پر آپ کا رد عمل آیا ہے، آپ ایسا کریں اس پر جوڈیشل کمیشن بنادیں۔انہوںنے کہاکہ میرا یہ مؤقف رہا کہ اگر میرے الزامات جھوٹے ہیں تو مجھے ڈی چوک میں پھانسی دے دیں اور اگر میرے الزامات سچے ہیں تو یہ تو بتایا جائے کہ ان یونیفارم میں موجود افسران کے بارے میں کم از کم یہ تو بتایا جائے کہ ان کے بارے میں کیا ہوگا جو یہ سب کچھ کر رہے تھے، لیکن اس طرف کوئی بھی نہیں گیا اور اس حوالے سے کوئی بھی اقدام نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومت چاہتی تو وہ بھی اس بارے میں کچھ کر سکتی تھی لیکن ظاہر ہے حقیقت سب کو پتا ہے، اس لیے کوئی بھی اس طرف جانا پسند نہیں کرتا۔شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ موجودہ عدلیہ میں مداخلت، افسران اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ کے معاملے میں کمی آئی ہے، عدلیہ اپنی آزادی کو اپنے فیصلوں کے ذریعے ظاہر بھی کر رہی ہے کہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہے۔سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ میں نے اس وقت جو الزامات لگائے، اس پر جو نتائج بھگتے، اس عرصے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مجھے اس پر کوئی افسوس نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ میں ان نتائج سے آگاہ تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ میں تو سمجھ رہا تھا کہ میری جان کو بھی خطرہ ہوسکتا ہے لیکن مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے، میں آج سرخرو ہوگیا ہوں، مجھے جتنی عزت ملی، وہ ایک ٹھیک فیصلہ ثابت ہوا۔شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ہر بندے کے اندر اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ ایک ادارے کی طاقت کے سامنے کھڑے ہوں،اس کے علاوہ اپنی کمزوریاں بھی ہوتی ہیں، لوگوں کی ‘کمپرومائزڈ’ قسم کی چیزیں لوگوں کی موجود ہوتی ہیں، اس کی وجہ سے ان کے اندر وہ اخلاقی ہمت نہیں ہوتی جو ایک باکردار شخص کے پاس ہوتی ہے، اس کے نتیجے میں وہ کمپرومائزڈ نظر آتے ہیں۔