بھارت میں متنازع زرعی اصلاحات کا قانون منسوخ’احتجاج جاری رکھیں گے ‘کسان

0
222

نئی دہلی (این این آئی)بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی ستمبر 2020 میں منظور ہونے والے متنازع زرعی قوانین منسوخ کرنے پر مجبور ہوگئے جن کے خلاف کسانوں نے ایک برس تک ملک گیر طویل احتجاج کیا تھا۔ بھارتی قانون سازوں نے زرعی قانون سازی کو منسوخ کر دیا جسے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے لیے ایک بڑی تبدیلی اور ان کی ناکامی کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔فارم لاز کی منسوخی کا بل پارلیمنٹ کے ایوان زیریں اور ایوان بالا میں مختصر بحث کے ساتھ منظور کر لیا گیا تھا جس کے 10 دن بعد نریندر مودی نے ایک ٹیلیویژن قومی خطاب میں تینوں قوانین کو واپس لینے کا اعلان کیا۔احتجاج کرنے والے کسان گزشتہ برس نومبر سے دارالحکومت نئی دہلی کے باہر عارضی کیمپوں میں بیٹھ کر ان قوانین کو منسوخ مطالبہ کیا، انہیں خدشہ تھا کہ ان کی آمدنی میں زبردست کمی واقع ہو جائے گی۔منسوخی بل کو باضابطہ طور پر نافذ کرنے سے پہلے صدر کی جانب سے دستخط کرنے کی ضرورت ہوگی لیکن کسانوں نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ان کے مظاہرے جاری رہیں گے۔ٹریکٹروں، جیپوں اور کاروں پر سوار ہزاروں پرجوش کسانوں نے سبز اور سفید جھنڈے لہرائے اور اپنی جیت کا جشن منایا لیکن ساتھ ہی واضح کیا کہ حکومت نے ان کے تمام مطالبات پورے نہیں کیے ہیں۔کسان رہنما راکیش ٹکائیت نے کہا کہ انہیں گندم اور چاول جیسی کچھ ضروری فصلوں کے لیے یقینی قیمتوں کی حکومتی یقین دہانیوں کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک ایسا نظام جو 1960 کی دہائی میں بھارت کو خوراک کے ذخائر کو بڑھانے اور قلت کو روکنے میں مدد کرنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت کسانوں کے احتجاج ختم کرنے پر غور کرنے سے پہلے ان مطالبات کو حل کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کرے۔نریندر مودی کی انتہائی دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعت پہلے ہی اتر پردیش میں برسر اقتدار ہے لیکن ڈوبتی ہوئی معیشت اور وبائی امراض سے متعلق حکومت کے ناقص فیصلوں کے باعث شدید دباؤ میں ہے