افغانستان کے اندر اور اس سے ہونے والی دہشت گردی سنگین خطرہ ہے، پاکستانی مندوب عثمان جدون

0
36

نیویارک (این این آئی)پاکستان نے عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروپ تحریک طالبان پاکستان القاعدہ کے بازو کے طور پر ابھر کر اپنے علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی کے ایجنڈے کے ساتھ خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے قائم مقام مستقل مندوب عثمان جدون نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں افغانستان کی صورتحال پر مباحثے کے دوران بتایا کہ افغانستان کے اندر اور اس سے ہونے والی دہشت گردی ملک، خطے اور دنیا کے لئے واحد سنگین خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان عبوری حکومت داعش خراسان کے خلاف لڑ رہی ہے، القاعدہ، ٹی ٹی پی اوران جیسے دیگر دہشت گرد گروپوں کے خطرے کا تدارک ابھی باقی ہے۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ اپنے چھ ہزار ارکان کے ساتھ ٹی ٹی پی ایک بڑ ا اور مضبوط گروپ ہے جو پاکستان کی سرحد کے ساتھ اپنی محفوظ پناہ گاہوں کی وجہ سے پاکستان کی سلامتی کے لئے براہ راست اور خطرہ ہے۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ ٹی ٹی پی کی سرحد پار کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کے دوران ہمارے سکیورٹی اہلکاروں نے افغانستان میں تعینات رہنے والی غیر ملکی افواج کی طر ف سے چھوڑے گئے کچھ جدید ہتھیار پکڑے ہیں ۔ انہوں نے بھارت کا نام لئے بغیر کہا کہ اس دہشت گرد گروپ کو ہمارے مخالفین کی طرف سے بیرونی حمایت اور مالی اعانت بھی حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی تیزی سے دوسرے دہشت گرد گروہوں کو ایک چھتری تلے جمع کرنے والی تنظیم کے طور پر ابھر رہی ہے، جس کا مقصد افغانستان کے پڑوسیوں کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ ہمارے پاس مجید بریگیڈ جیسے دیگر دہشت گرد گروپوں کے ساتھ ٹی ٹی پی کے تعاون کے ثبوت موجود ہیں جو چین کے ساتھ پاکستان کے اقتصادی تعاون ، بشمول چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کے خلاف دہشت گردی کا استعمال کر رہے ہیں۔ القاعدہ کے ساتھ طویل وابستگی کے پیش نظر، ٹی ٹی پی علاقائی اور عالمی دہشت گردی کے ایجنڈے کے ساتھ القاعدہ کے بازو کے طور پر ابھر سکتی ہے۔انہوں نیاس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ان خطرات کو ختم کرنے کے لیے تمام ضروری قومی اقدامات کرے گا۔پاکستانی مندوب نے اس امید کا اظہار کیا کہ بین الاقوامی برادری کی توقعات کے مطابق افغانستان کی عبوری حکومت خواتین اور لڑکیوں کو سرکاری اور نجی طبی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت سمیت انسانی حقوق اور سیاسی شمولیت سے متعلق اپنے اعلان کردہ وعدوں کو پورا کرے گی۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ افغانستان کی عبوری حکومت نے خواتین پر پہلے سے عائد پابندیوں میں نرمی کی بجائیخواتین اور لڑکیوں پر مزید پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ انہوں نے دوحہ عمل کے فریم ورک پر مکمل عملدرآمد پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے چیلنجز بشمول دہشت گردی، انسانی حقوق اور وسیع پیمانے پر غربت بھی خطے کو متاثر کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری 23.7 ملین افغانوں، جنہیں فوری امداد کی ضرورت ہے کی کی مدد کرنے کی پابند ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی معیشت کو تقویت دینے کے لئے خاطر خواہ اقدامات کیے جائیں جن میں قومی بینکاری نظام اور تجارتی سرگرمیوں کی بحالی خاص طور سے قابل زکر ہیں۔پاکستانی سفیرنے کہا کہ پاکستان کے افغانستان کے ساتھ نسلی، تاریخ، عقیدے، زبان اور ثقافت کے گہرے رشتے موجود ہیں۔ ہمارے افغان بھائیوں اور بہنوں کے مصائب کا پاکستانی عوام پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ پاکستان افغانستانکی بین الاقوامی برادری میں بھرپور شمولیت کا سب سے زیادہ خواہاں ہے۔قبل ازیں افغانستان کی صورتحال پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے، سیکرٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ اور افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) کی سربراہ روزا اوتن بائیفا نے کہا کہ انہوں نے افغانستان میں خواتین سے متعلق تازہ ترین پابندیوں پر نظر ثانی کرنے کی سختی سے تاکید کی ۔ انہوں نے کہا کہ افغان حکام کی سیاسی فیصلہ سازی تیزی سے ابہام کا شکار ہوتی جا رہی ہے، جس کی وجہ ملک کے استحکام کو خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر افغانستان کی وزارت برائے مہاجرین اور وطن واپسی پررواں ہفتے خودکش حملے کا بھی زکر کیا۔ انہوں نے افغان عوام کے مفاد میں افغان حکام کے ساتھ روابط بحال رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ روابط کی بحالی افغانستان کی عبوری حکومت کو تسلیم کرنا نہیں بلکہ اس کو تشدد کی طرف واپس جانے سے روکنا ہے۔