5 کروڑ تک کے کیسز میں عدالتی وارنٹ کے بغیر گرفتاری نہیں ہوسکے گی ، وزیر خزانہ

0
28

اسلام آباد(این این آئی)وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ایف بی آر کو حاصل اختیارات کا دوبارہ جائزہ لیا گیا اور 5 کروڑ تک کے کیسز میں عدالتی وارنٹ کے بغیر گرفتاری نہیں ہوسکے گی،75 سال سے زائد عمر کے افراد ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں، ایک کروڑ سے زائد پنشن پر ٹیکس ہوگا، 15 سال تک ذاتی رہائش پر ود ہولڈنگ ٹیکس نہیں ہوگا ،حکومتی سکیورٹی پر سرمایہ کاری پر 20 فیصد ٹیکس ہوگا، کاروباری ماحول میں بہتری لارہے ہیں، صنعتی پالیسی کا جلد آغاز کیا جائیگا، ٹیکس کی تعمیل اور بنیاد میں وسعت پر توجہ دی جا رہی ہے، سولر پینلز پر ٹیکس کی شرح 10 فیصد ہو گی، روئی اور دھاگے کی درآمد پر سیلز ٹیکس اور ڈیوٹی کی چھوٹ ختم کر دی جائے گی، 75 سال سے زائد عمر والے پنشنرز کسی بھی قسم کے ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔پیر کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ پرعام بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہاکہ وہ وزیراعظم، ڈپٹی وزیراعظم، اراکین قومی اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیز کے چیئرمینوں اور اراکین، اتحادی جماعتوں کے اراکین، اراکین قومی اسمبلی اور تمام شراکت داروں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے بجٹ کی تیاری، بحث اور اس حوالہ سے تجاویز اور سفارشات کو حتمی شکل دینے میں تعاون فراہم کیا، اس رہنمائی کی وجہ سے حکومت کومتوازن بجٹ دینے میں مدد ملی۔وزیرخزانہ نے کہاکہ آئندہ مالی سال کے دوران حکومتی اخراجات میں کمی اورٹیکس کی بنیاد اور تعمیل پر زور دیا گیا ہے، ٹیکس کی بنیادمیں وسعت اورتعمیل کیلئے ایف بی آرمیں اصلاحات اور ڈیجیٹلائزیشن کے عمل کوآگے بڑھایا جا رہا ہے، تنخواہ دارطبقہ پرٹیکسوں کابوجھ کم کر دیا گیا ہے، تعمیراتی شعبہ کوریلیف دیاگیا۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ ٹیرف کو معقول بنانا اہمیت کاحامل ہے،درآمدی خام مال اور ٹیرف لائنزمیں سہولت سے نہ صرف برآمدات میں اضافہ ہوگا بلکہ صنعتوں کو فروغ دینے اور اصلاحات کے عمل کوآگے بڑھانے میں بھی مدد ملے گی، صنعتی پالیسی تیارہے اور اس کا اعلان جلد ہو گا جبکہ الیکٹرانک گاڑیوں کیلئے پالیسی کااعلان بھی جلدکیاجائے گا۔وزیرخزانہ نے کہاکہ توانائی سمیت اہم شعبوں میں اصلاحات کاعمل جاری رہے گا،سماجی بہبودکے شعبہ میں بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 592 ارب روپے سے بڑھاکر 716 ارب روپے کر دیا ہے۔ اس اقدام سے تقریباً ایک کروڑ خاندانوں کو مالی امداد فراہم کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی بھرپور کوشش ہو گی کہ ان خاندانوں کے افراد کو ہنر مندکارکن بنایا جائے اور ان کو اپنی زندگیوں میں بڑی تبدیلی لانے، غربت کے چکر کو توڑنے اور معیشت میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جائے۔ اس حوالے سے حکومت، بینظیر ہنر مند پروگرام کو مطلوبہ وسائل فراہم کرے گی۔ اسی طرح حکومت برٹش ایشین ٹرسٹ کے اشتراک سے پاکستان کا پہلا سکلز ایمپیکٹ بانڈ متعارف کرانے جا رہی ہے جو نتائج پر مبنی مالی معاونت کی نئی مثال بنے گا اور نوجوانوں کو مارکیٹ سے ہم آہنگ تربیت فراہم کرے گا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے زرعی شعبہ کے فروغ اور چھوٹے کسانوں کی معاونت کیلئے بغیر ضمانت اور نقد بنیادوں پر قرضے فراہم کرنے کا فلیگ شپ پروگرام بنایا ہے جس کے تحت ساڑھے بارہ ایکڑ تک کے چھوٹے کسانوں کو ڈیجیٹل ذرائع سے 10 لاکھ روپے تک کے قرضے دیئے جائیں گے۔ اس قرض سے منظور شدہ بیج، کھاد، زرعی ادویات اور ڈیزل کی ادائیگی کی جا سکے گی اور کسان کو فصل اور زندگی کی بیمہ سہولت بھی فراہم کی جائے گی۔ اس کے علاوہ حکومت کسانوں کیلئے الیکٹرانک ویئر ہائوس رسید کا نظام وضع کرنے جا رہی ہے جس کے تحت اناج کو سٹور کرنے میں مدد ملے گی، کسانوں کو اپنی فصل کی بہتر قیمت ملے گی اور مجموعی فوڈ سکیورٹی میں استحکام آئے گا۔انہوں نے کہا کہ حکومت قابل اسطاعت ہائوسنگ فنانس کے فروغ اور پہلی بار گھر خریدنے یا تعمیر کرنے کے خواہشمند کم آمدنی والے افراد کیلئے 20 سالہ مدت کی قرض سکیم متعارف کرانے جا رہے ہیں، خواتین کی مالی شمولیت کیلئے خواتین کیلئے مخصوص مالیاتی پروگرام کے تحت ایک لاکھ ترانوے ہزار سے زیادہ خواتین کو 14 ارب روپے کے قرضے فراہم کئے جا چکے ہیں۔انہوںنے کہاکہ اگلے مالی سال میں ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے خواتین کو تقریباً 14 ارب روپے کے مزید قرضے فراہم کئے جائیں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کو تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کے بوجھ کا بخوبی احساس ہے۔ دستیاب مالی گنجائش میں رہتے ہوئے ریلیف فراہم کرنے کیلئے ، حکومت نے ابتدائی طور پر 32 لاکھ روپے تک کی آمدن کی سلیبز پر ٹیکس کی شرح کم کرنے کی تجویز دی۔ اسی طرح 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے کم کر کے 2.5 فیصد کرنے کی تجویز تھی تاہم وزیراعظم کی ہدایت پر حکومت نے اس آمدن یعنی 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے پر ٹیکس کی شرح مزید کم کر کے صرف ایک فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوںنے کہاکہ اس اقدام سے اس کیٹگری میں شامل تنخواہ دار طبقہ کو اضافی ریلیف ملے گا اور ان کی مالی مشکلات میں کمی آئے گی۔ اس کے علاوہ میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ بجٹ تقریر سے یہ تاثر لیا گیا کہ پنشن پر ٹیکس عائد ہونے کی وجہ سے کمیوٹیشن اور گریجویٹی کی رقم پر بھی ٹیکس عائد ہو گا لیکن ایسا نہیں ہے جو لوگ سالانہ ایک کروڑ سے زائد پنشن وصول کرتے ہیں صرف انہی پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے جبکہ وزیراعظم پاکستان کی خصوصی ہدایات پر75سال سے زائد عمر والے پنشنر کسی بھی قسم کے ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔