انسانی آنکھ کی پلک جتنا دنیا کا سب سے بڑا بیکٹیریا دریافت

0
238

واشنگٹن(این این آئی)سائنسدانوں نے کیریبین جزیرے گواڈیلوپ کے ایک دلدل میں دنیا کا سب سے بڑا بیکٹیریا دریافت کیا ہے جس کا سائز انسانی پلکوں جتنا ہے اور دیکھنے میں سفید دھاگے کی طرح ہے۔تھائیومارگاریٹا میگنیفیکا نامی یہ بیکٹیریا ایک سینٹی میٹر لمبا ہے اور اب تک دریافت ہونے والے بڑے بیکٹیریا کی دیگر اقسام سے 50 گنا زیادہ بڑا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق پتلے سفید دھاگوں نما بیکٹیریا سمندری دلدل میں گلتے ہوئے مینگروو کے پتوں کی سطح پر دریافت ہوا، یہ دریافت اس لیے حیران کن ہے کیونکہ سیل میٹابولزم کے ماڈلز کے مطابق بیکٹیریا اتنا بڑا نہیں ہوسکتا۔نئے بیکٹیریا کی دریافت سے قبل سائنسدانوں نے بیکٹیریا کے سائز کی ممکنہ حد اس سے 100 گنا چھوٹی طے کی تھی۔اس بیکٹیریا کو دریافت کرنے والی ٹیم میں شامل لارنس بارکلے نیشنل لیبارٹری کی ماہر جین میری وولینڈ نے اس کا دیگر بیکٹیریا سے موازنہ سمجھانے کے لیے بتایا کہ آپ تصور کریں کہ ایک انسان کا کسی ایسے دوسرے انسان سے سامنا ہوجائے جو ماونٹ ایورسٹ جتنا لمبا ہو۔اس بیکٹیریا کو یونیورسٹی ڈیس اینٹیلیس میں سمندری حیاتیات کے پروفیسر اولیور گروس نے گواڈیلوپ میں اس وقت دریافت کیا جب وہ مینگروو ماحولیاتی نظام میں سمبیوٹک بیکٹیریا کی تلاش کر رہے تھے۔انہوں نے بتایا کہ جب ہم نے اس بیکٹیریا کو دیکھا تو ہمیں عجیب لگا، جب ہم نے خوردبین میں اس کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک واحد سیل ہے۔جین میری وولینڈ نے کہا کہ بیکٹیریا کی زیادہ تر اقسام میں ڈی این اے خلیات کے اندر آسانی سے گردش کرتا ہے مگر تھائیومارگاریٹا میگنیفیکا بظاہر اپنے ڈی این اے کو خلیات کے مختلف جھلیوں میں زیادہ منظم طریقے سے رکھتا ہے جو کسی بیکٹیریا کے لیے بہت عجیب بات ہے۔اس بیکٹیریا میں دیگر اقسام کے بیکٹیریا کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ جینز موجود ہیں اور ہر خلیے میں جینوم کی لاکھوں نقول ہیں جو اسے غیر معمولی طور پر پیچیدہ بناتی ہیں۔سائنس دانوں کو تاحال یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ بیکٹیریا اتنا بڑا کیسے بنا؟ ایک امکان یہ ہے کہ اس نے شکار سے بچنے کے لیے خود کو اس طرح ڈھال لیا ہے۔جین میری وولینڈ نے کہا کہ اگر آپ اپنے شکاری سے سینکڑوں یا ہزاروں گنا بڑے ہوتے ہیں تو آپ اس کا شکار نہیں بن سکتے۔تاحال یہ بیکٹیریا دیگر مقامات پر نہیں ملا ہے اور جب محققین حال ہی میں واپس گواڈیلوپ آئے تو یہ وہاں سے بھی غائب ہوچکا تھا جس کی ممکنہ وجہ اس کا موسمی جاندار ہونا ہوسکتی ہے۔