ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف ٹرائل سے محروم رکھا گیا ، چیف جسٹس

0
20

اسلام آباد(این این آئی)چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ذوالفقار علی بھٹو کیس میں اضافی نوٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضابطہ فوجداری کے تحت قتل کا ٹرائل براہ راست ہائیکورٹ نہیں کر سکتی۔چیف جسٹس نے لکھا ہے کہ سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے بعد میں تسلیم کیا ان پر بیرونی دباؤ تھا، یہ ہماری قوم کی عدالتی تاریخ کا افسوسناک باب ہے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ جسٹس دراب پٹیل ،جسٹس محمد علیم اور جسٹس صفدرکے جرات مندانہ اختلافی نوٹ سے کیس کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے، تینوں جج اْس وقت کے ماحول کے باوجود اپنے موقف پر کھڑے رہے۔چیف جسٹس نے تحریر کیا کہ تینوں ججز کے اختلافی نوٹس سے صورتحال تبدیل نہیں ہوئی، عدلیہ کی ساکھ اور غیر جانبداری برقرار رہی اور قانون کی حکمرانی کیلئے پْر عزم خودمختار عدلیہ کی اہمیت اجاگر ہوئی۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ میں کہا کہ میری رائے میں ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف ٹرائل سے محروم رکھا گیا، بھٹو کیس جیسے واقعات کا تدارک نہ کیا جائے تو عدالتی نظام کی شفافیت اور عوامی اعتماد کو خطرات لاحق رہتے ہیں۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کے مقدمے میں صدارتی ریفرنس پر 5 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ جاری کیا۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ مجھے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت دیگر ججز کے نوٹس پڑھنے کا اتفاق ہوا، جسٹس منصور کے نوٹ سے ایک حد تک اتفاق کرتا ہوں، ریفرنس میں دی گئی رائے میں کیس کے میرٹس پر کسی حد تک بات کی گئی ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے نوٹ میں مزید کہا ہے کہ آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ صرف ایڈوائزری دائرہ اختیار رکھتی ہے تاہم فیئر ٹرائل کے سوال پر فیصلے کے پیراگراف سے اتفاق کرتا ہوں، اس نتیجہ پرپہنچا ہوں کہ ذوالفقار بھٹو کیس میں ٹرائل کورٹ اور اپیلیٹ عدالت کی جانب سے فیئر ٹرائل کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔ یہ ریفرنس شاید ہمارے سامنے نہ آتا مگر کچھ واقعات اس کا موجب بنے، جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کے کچھ نکات کو ایڈریس کرنا ضروری ہے، اس وقت کی غیر معمولی سیاسی فضا میں دباؤ نے انصاف کے عمل کو متاثر کیا۔نوٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ سب عدالتی آزادی کے نظریات سے متصادم تھا، آئینی طرز حکمرانی سے انحراف سیاسی مقدمات میں عدالتی کارروائیوں پر غیر ضروری اثر ڈالتا ہے۔چیف جسٹس نے نوٹ میں مزید لکھا ہے کہ ایسے حالات میں جسٹس دراب پٹیل، جسٹس محمد حلیم اور جسٹس صفدر شاہ نے جرات مندانہ اختلاف کیا۔