شوکت عزیز برطرفی کیس ،سپریم کورٹ نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید و دیگر کو نوٹس جاری

0
172

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی اپنی برطرفی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید، بریگیڈیئر (ر) عرفان رامے، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور کانسی اور سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو نوٹس جاری کردیاجبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ آرٹیکل 184/3 کی درخواست میں عدالت کا اختیار شروع ہوچکا ہے، فوجی افسر کسی کو فائدہ دے رہے تو وہ بھی اس جال میں پھنسے گا،شوکت عزیز صدیقی نے جو سنگین الزامات لگائے انکے نتائج بھی سنگین ہونگے، سپریم کورٹ کو کسی کے مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے،شوکت عزیز صدیقی نے زیادہ نام فیض حمید کا لیا ہے، قمر باجوہ سے متعلق گفتگو تو سنی سنائی ہے، قمر باجوہ نے شوکت عزیز صدیقی سے براہ راست کوئی بات نہیں کی تھی۔ جمعہ کو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عرفان سعادت شامل تھے۔شوکت صدیقی کی برطرفی کے خلاف کیس کی براہ راست نشریات سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل اور ویب سائٹ پردیکھی جاسکتی تھی، براہ راست عدالتی کارروائی اس یوٹیوب چینل اور ویب سائٹ پر نشر کی گئی۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کیا درست ہیں؟ شوکت عزیز صدیقی کو ان الزامات پر مبنی کی گئی تقریر پر برطرف کیا گیا، سوچ کر جواب دیں کہ کیا آپ کے الزمات درست ہیں، کیا وہ جنرل جن کو آپ فریق بنانا چاہتے ہیں وہ خود 2018 کے انتخابات میں اقتدار میں آنا چاہتے تھے؟چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر شوکت عزیز صدیقی کے الزامات درست ہیں تو وہ جنرلز کسی کے سہولت کار بننا چاہ رہے تھے جس کی یہ جنرل سہولت کاری کر رہے تھے وہ کون تھا؟ وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ میرے لگائے گئے الزامات درست ہیںچیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ ہمارے سامنے آرٹیکل 184 تین کے تحت آئے ہیں، یہ بھی یاد رکھیں کہ اصل دائرہ اختیار کے تحت کیا ہو سکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سہولت کاروں کو فریق بنا رہے ہیں، اصل بنیفشری تو کوئی اور ہے، آپ نے درخواست میں اصل بنیفشری کا ذکر ہی نہیں کیا، آپ نے لوگوں کی پیٹھ پیچھے الزامات لگائے جن پر الزامات لگائے گئے وہ کسی اور کیلئے سہولت کاری کر رہے تھے، سہولت کاری کرکے کسی کو تو فائدہ پہنچایا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آئین پاکستان کی پاسداری نہ کرکے وہ اس جال میں خود پھنس رہے ہیں، سہولت کاروں کو فریق بنا لیا ہے تو فائدہ اٹھانے والے کو کیوں نہیں بنایا؟ شوکت عزیز صدیقی فائدہ کس نے لیا ایسی کوئی بات تقریر میں نہیں تھی، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 کی درخواست میں عدالت کا اختیار شروع ہوچکا ہے، فوجی افسر کسی کو فائدہ دے رہے تو وہ بھی اس جال میں پھنسے گا۔وکیل حامد خان نے کہا کہ فوج شاید مرضی کے نتائج لینا چاہتی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ ایک امیدوار کو سائیڈ پر اسی لیے کیا جاتا ہے کہ من پسند امیدوار جیتے، وکیل شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ فوج نے اپنے امیداواروں کو جیپ کا نشان دلوایا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کبھی تو ملک میں سچ کی جان جانا ہی ہے، وکیل حامد خان نے کہا کہ ستر سال سے ملک میں یہی ہو رہا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا ستر سال سے جو ہورہا ہے اس کا ازالہ نہ کریں؟ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فوج ایک آزاد ادارہ ہے یا کسی کے ماتحت ہے؟ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فوج کو چلاتا کون ہے؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ فوج حکومت کے ماتحت ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ حکومت فرد نہیں ہے، جو شخص فوج کو چلاتا ہے اس کا بتائیں،جب آپ ہمارے پاس آئیں گے تو ہم آئین کے مطابق چلیں گے، یہ آسان راستہ نہیں ہے، شوکت عزیز صدیقی نے جو سنگین الزامات لگائے انکے نتائج بھی سنگین ہونگے، سپریم کورٹ کو کسی کے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہمارے کندھے استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم کسی ایک سائیڈ کی طرف داری نہیں کریں گے۔وکیل بار کونسل صلاح الدین نے کہا کہ سابق جج نے اپنے تحریری جواب میں جن لوگوں کا نام لیا ہم ان کو فریق بنا رہے ہیں ، شوکت عزیز صدیقی نے بانی پی ٹی آئی سمیت کسی اور کو فائدہ دینے کی بات نہیں کی، مفروضے پر ہم کسی کو فائدہ پہنچانے کیلئے کسی کا نام نہیں لے سکتے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات بھی مفروضے ہیں۔چیف جسٹس نے بار ایسوسی ایشن کے وکیل صلاح الدین سے مکالمہ کیا کہ کیا کسی کا بھی نام لکھ دیں تو اسے نوٹس کر دیں، کیا شوکت صدیقی بیرسٹر صلاح الدین کا نام لکھ دیں تو آپ کو بھی نوٹس کر دیں؟ کیا ہمارے کندھے استعمال کرنا چاہ رہے ہیں؟ نوٹس جاری کر کے بلاوجہ لوگوں کو تنگ بھی نہیں کرنا چاہیے، کس سیاسی جماعت کو نکالنے کے لیے یہ سب ہوا؟وکیل بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہا کہ جوڈیشل سسٹم پر دبائو ڈال کر نواز شریف کو نکالا گیا، چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ اس سے فائدہ کس کا ہوا؟ کیا سندھ بار یا اسلام آباد بار کو فائدہ دینے کیلئے یہ ہوا؟بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہا کہ ہم نے انکوائری کی درخواست کی تا کہ حقائق سامنے آئیں، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر سندھ بار شوکت صدیقی کی ہمدردی میں آئی کہ ان کو پنشن مل سکے تو یہ 184 تھری کا دائرہ کار نہیں بنتا، ہمیں نا بتائیں کہ انکوائری کریں یا یہ کریں، آپ معاونت کریں جو کرنا ہے ہم کریں گے