سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں عمران خان، شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت منظورکرلی

0
169

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے سائفر کیس میں سابق و زیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے دونوں کو دس دس لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیاہے جبکہ ججز نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جیل میں قید شخص ایک بڑی جماعت کی نمائندگی کرتا ہے، اس وقت معاملہ بانی پی ٹی آئی کا نہیں، عوام کے حقوق کا ہے، بانی پی ٹی آئی پر جرم ثابت نہیں ہوا، وہ معصوم ہیں، انتخابات میں حصہ لینا ہی ضمانت کے لیے اچھی بنیاد ہے، اصل سائفر تو وزارت خارجہ میں ہے اگر وہ باہر گیا ہے تو یہ دفتر خارجہ کا جرم ہے، سائفر کو عوام میں زیربحث نہیں لایا جا سکتا، وزیر خارجہ سیانا تھا، سائفر کے بارے میں نہیں بتایا، وزیراعظم کو آگے کر دیا، وزیرخارجہ نے وزیراعظم کو کہہ دیا تم جانو تمہارا کام جانے۔قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی، بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ بینچ میں شامل تھے۔سپریم کورٹ نے درخواست منظور کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو 10،10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جس انداز میں ٹرائل ہو رہا ہے، پراسیکیوشن خود رولز کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ جیل میں قید شخص ایک بڑی جماعت کی نمائندگی کرتا ہے، اس وقت معاملہ بانی پی ٹی آئی کا نہیں، عوام کے حقوق کا ہے۔انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی پر جرم ثابت نہیں ہوا، وہ معصوم ہیں، انتخابات میں حصہ لینا ہی ضمانت کے لیے اچھی بنیاد ہے۔قبل ازیں سماعت کے آغاز پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر نوٹس نہیں ہوا، قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی نوٹس کر دیتے ہیں، آپ کو کیا جلدی ہے۔وکیل سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے جلد بازی میں 13 گواہان کے بیانات ریکارڈ کر لیے ہیں، جس پر قائم قام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ اسپیڈی ٹرائل ہر ملزم کا حق ہوتا ہے، آپ کیوں چاہتے ہیں ٹرائل جلدی مکمل نہ ہو؟وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ ان کیمرا ٹرائل کے خلاف آج ہائی کورٹ میں بھی سماعت ہے جبکہ وکیل حامد خان نے بتایا کہ دوسری درخواست فرد جرم کے خلاف ہے۔قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو فرد جرم چیلنج کی تھی وہ ہائی کورٹ ختم کرچکی ہے، نئی فرد جرم پر پرانی کارروائی کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔وکیل حامد خان نے کہا کہ ٹرائل اب بھی اسی چارج شیٹ پر ہو رہا ہے جو پہلے تھی، قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ پرانی چارج شیٹ کے خلاف درخواست غیر موثر ہوچکی ہے، نئی فرد جرم پر اعتراض ہے تو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں۔وکیل حامد خان نے استدعا کی کہ مناسب ہوگا ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جائے، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ایسا نہ ہو آئندہ سماعت تک ٹرائل مکمل ہوجائے۔وکیل سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ شام چھ بجے تک ٹرائل چلتا ہے، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عدالتی اوقات کار کے بعد بھی ٹرائل چل رہا ہوتا ہے۔قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں ہمارے کیس چلتے نہیں، آپ کا چل رہا ہے تو آپ کو اعتراض ہے، فرد جرم والی درخواست غیر موثر ہونے پر نمٹا دیتے ہیں۔وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ حامد خان درخواست میں ترمیم کر چکے ہیں، اب اسے نئی درخواست کے طور پر لیا جائے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ترمیم شدہ درخواست بھی ہائیکورٹ سے پہلے ہم کیسے سن سکتے ہیں؟ سائفر کیس میں 13دسمبر کی فردجرم چیلنج ہی نہیں کی گئی۔وکیل حامد خان نے کہا کہ ہائی کورٹ کارروائی کا انتظار کیا جائے، قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ بری کر دے تو بھی اس درخواست پر کچھ نہیں ہوسکتا، فرد جرم کے خلاف درخواست غیر موثر ہوچکی ہے۔وکیل حامد خان نے کہا کہ آج التوا دے دیں، آئندہ سماعت پر شاید واپس لے لوں، قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ کیس ملتوی ہوا تو ضمانت والا بھی ساتھ ہی ہوگا۔ دور ان سماعت عدالت نے شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر حکومت اور ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سرکاری وکیل کو آج ہی دلائل دینے کی ہدایت کردی۔دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سائفر کوڈز کی صورت میں آتا ہے، وزارت خارجہ کبھی بھی کوڈز پر مبنی سائفر وزیراعظم کو نہیں دیتا، وزارت خارجہ وزیراعظم کو سائفر کا ترجمہ یا اس پر بریفنگ دیتی ہے۔وکیل سابق وزیراعظم سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کوڈز ہر ماہ تبدیل ہوتے ہیں، سائفر کا انگریزی ترجمہ متعلقہ لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پراسیکویشن کا کیا کہنا ہے کہ سائفر کس کیساتھ شیئر کیا گیا؟ سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کسی کے ساتھ کبھی شیئر نہیں کیا گیا۔سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کو ڈی کلاسیفائی کرنے کے بعد ہی سپریم کورٹ کو بھیجا گیا تھا، سائفر کے خفیہ کوڈز کبھی سابق وزیراعظم کے پاس تھے ہی نہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وزارت خارجہ سائفر سے متعلق حکومت کو آگاہ کرتی ہے تاکہ خارجہ پالیسی میں مدد مل سکے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا مقصد ہی یہی ہے کہ حساس معلومات باہر کسی کو نہ جا سکیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ڈپلومیٹک معلومات بھی حساس ہوتی ہیں لیکن ان کی نوعیت مختلف ہوتی ہے، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر اسد مجید نے سائفر حساس ترین دستاویز کے طور پر بھیجا تھا۔