اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ افسوس ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنے ہی معاہدے سے پھر گئیں، دونوں جماعتوں نے میثاقِ جمہوریت میں خفیہ طریقے کار کو ختم کرنے کا معاہدہ کیا تھا، میثاق جمہوریت کی دستاویز اب بھی موجود ہے، دستخط کرنے والی پارٹیاں اب اس پر عمل نہیں کررہیں۔ جمعرات کو چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی، اس دوران اٹارنی جنرل و صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل و دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن نے سینیٹ ووٹرز کیلئے ہدایت نامہ تیار کیا ہے؟، گزشتہ انتخاب کیلئے ہدایت نامہ تیار کیا گیا تھا تاہم ہمیں ابھی الیکشن کمیشن کی جانب سے ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کو یہاں ہونا چاہیے، جس پر سیکریٹری الیکشن کمیشن روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ہم نے ہدایت نامہ تیار کیا ہے، اس پرچیف جسٹس نے کہا کہ اگر ووٹرز کے لیے ہدایت نامہ تیار کیا ہے تو دکھائیں۔سپریم کورٹ نے ووٹرز کے لیے بنائے جانے والا ہدایت نامہ طلب کرتے ہوئے کہا کہ تمام ججز اور فریقین کیلئے کاپی منگوائی، جس کے بعد الیکشن کمیشن کے کاپیز مہیا کردیں۔بعد ازاں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے عدالت میں دلائل دینا شروع کیے اور کہا کہ ہدایت نامہ میں متناسب نمائندگی اور خفیہ ووٹنگ کا ذکر ہے۔انہوں نے کہا کہ ووٹ ڈالنے کا عمل خفیہ ہونا چاہیے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا اطلاق سینیٹ انتخابات پر نہیں ہوتا۔ نجی ٹی وی کے مطابق سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دینے پر کوئی سزا نہیں، جس پارٹی کے خلاف ووٹ دینا ہے کھل کر دے، سزا صرف ووٹوں کی خرید و فروخت پر ہو سکتی ہے۔اسی پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ قانون ہمیشہ معاشرے کے تجربات سے بنتا ہے، کوئی برا واقعہ ہو تو ہے اس کے حوالے سے قانون سازی ہوتی ہے۔ موجودہ حالات میں شخصیات کو نہیں اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا۔احمد اویس نے کہا کہ اراکین اسمبلی کو سیاسی جماعتیں لے کر آتی ہیں، جنہیں مزید مضبوط کرنا ہوگا۔اس موقع پر احمد اویس نے کہا کہ شفافیت کے لیے ہر چیز خفیہ رکھنا لازمی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کا کہ آرٹیکل 59 میں خفیہ ووٹنگ کا کوئی ذکر نہیں، آئین کا ارٹیکل 59 سینٹ کے حوالے سے ہے۔بعد ازان ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے دلائل شروع کیے اور بتایاکہ ریفرنس میں اٹھایا گیا سوال ہی غیر مناسب ہے۔انہوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ اپنے سر پر بوجھ نہیں اٹھا سکتے، ہارس ٹریڈنگ کا سب نے سنا ہے کسی کے پاس شواہد نہیں ہیں، اخباری خبروں اور ویڈیوز تک ہی ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے