کسی نے نہیں روکا، طے تھا اکثریت نہیں ملی تو میں وزیراعظم نہیں بنوں گا، نوازشریف

0
16

لندن (این این آئی)سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ یہ ہرگز سچ نہیں ہے کہ انہیں وزیراعظم بننے سے روکا گیا، طے کرلیا تھا کہ اکثریت نہیں ملی تو وہ وزیراعظم کے امیدوار نہیں ہوگے، اس میں کوئی راز نہیں،عمران خان نے میری بات مانی ہوتی تو ہمیں تکالیف نہ اٹھانی پڑتیں،پاک بھارت تعلقات بہتر ہونے چاہئیں۔صدر مسلم لیگ (ن) میاں محمد نواز شریف نے پاکستان روانگی سے قبل لندن کے علاقے پارک لین میں واقع فور سیزن ہوٹل میں چائے کی نشست پر نجی ٹی وی سے گفتگو کررہے تھے ۔انہوں نے کہاکہمیں ایسا کچھ نہیں کہنا چاہتا جو مشکلات یا عدم استحکام کا باعث بنے، یہ آخری چیز ہے جو میں ملک کے لیے کرنا چاہتا ہوں۔سابق وزیراعظم نے اپنے حالیہ دورے کے دوران بھارتی کرکٹ ٹیم کے چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہ آنے کے فیصلے پر بات کی تھی، اس حوالے سوال کیا گیا کہ کیا وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ ڈپلومیسی پر یقین رکھتے ہیں؟۔نواز شریف نے معاملے کی پیچیدہ نوعیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہاکہ پاک بھارت تعلقات کا موضوع منفرد ہے، کوئی بھی ایماندارانہ جواب کسی بھی ایک فریق کے لیے تکلیف دہ ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ مجھے بردباری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور جارحانہ بیانات سے گریز کرنا ہوگا، خطے کا سینئر ترین سیاستدان ہونے کے ناطے میں کوئی غلط فہمی نہیں چاہتا۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی دوبارہ کامیابی پر خیرمقدمی پیغام پر بھارتی بے التفاتی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہاکہ ‘ ہم دونوں ممالک پڑوسی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، ہمارے تعلقات بہتر ہونے چاہئیں۔انہوں نے کہاکہ جب مسائل کی بات آتی ہے تو ہمیں دوستانہ ماحول میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے بات کرنی چاہیے، اگر کسی ملک سے آپ کے تعلقات بہتر ہوں تو اس کے ساتھ مسائل پر بات کرنا آسان ہوتا ہے، لیکن اگر آپ ایک دوسرے سے دور رہیں تو مسائل پر بات چیت نہیں کرسکتے۔سابق وزیر اعظم نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسی لیے میں نے کہا تھا کہ ان کی کرکٹ ٹیم کو پاکستان آنا چاہیے، اگر ایسی صورتحال ہوتی کہ ہمیں کھیلنے کے لیے بھارت جانا ہوتا تو میں چاہتا کہ پاکستان وہاں جانے والی پہلی ٹیم ہو، اس لیے بھارتی ٹیم کو پاکستان جانا چاہیے، اس سے تعلقات بہتر ہوں گے تاہم جب انہیں بھارت کی جانب سے طویل عرصے سے پاکستان پر عائد کردہ سرحد پر دہشت گردی سمیت دیگر الزامات کا حوالہ دیا گیا تو انہوں نے سادہ سا جواب دیا کہ ‘ ہم خود دہشت گردی کا شکار ہیں۔پاکستان میں حالیہ برسوں میں جمہوری اقدار کے بتدریج خاتمے بالخصوص سیاسی گرفتاریوں، مظاہرین کو ہراساں کیے جانے اور میڈیا اور انٹرنیٹ کی آزادیاں سلب کرنے سے متعلق سوال کیا گیا تو نواز شریف نے اپنے روایتی حریف کو مورد الزام ٹھہرادیا۔انہوں نے کہاکہ چاہے آپ اس سوال میں عمران خان کو لائیں یا نہ لائیں، وہی اس کی اصل وجہ ہیں، انہیں جمہوریت کو فروغ دینے اور استحکام بخشنے کا سب سے بڑا موقع ملا، جب میں وزیراعظم اور وہ اپوزیشن لیڈر تھے لیکن انہوں نے جمہوریت کو سمجھا نہ اس کے استحکام کے لیے کچھ کیا۔نواز شریف نے کہاکہ مجھے نہیں یاد کہ میں نے انہیں ایک یا دو مرتبہ سے زیادہ اسمبلی میں دیکھا ہو، انہوں نے سارا وقت اسمبلی سے باہر دھرنوں میں گزارا، ان کے ارکان نے استعفے دیے، انہوں نے 35 پنکچر کیس کے نام سے ہمارے خلاف مہم شروع کی جسے اس وقت کے چیف جسٹس ناصر الملک نے اٹھاکر باہر پھینک دیا، انہوں نے مولانا طاہر القادری سمیت دیگر لوگوں کے ساتھ اتحاد بنایا، کیا یہ جمہوریت تھی؟۔موجودہ حکومت میں جمہوری آزادیاں سلب کیے جانے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ‘عمران خان کی حکومت میں اس سے بھی بدتر صورتحال ہوئی۔انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا وقت جمہوریت کے استحکام پرصرف کیا، الیکشن جیتنے کے بعد میں عمران خان کے گھر گیا اور انہیں مل بیٹھ کر پاکستانی عوام کی خدمت دعوت دی، انہوں نے مجھے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا لیکن کچھ دن بعد انہوں نے اپنے دھرنے کا اعلان کر دیا’