قیدیوں پر تشدد کیس ،اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکومت کو ہیومن رائٹس کورٹ کے قیام کا حکم

0
465

اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد ہائیکورٹ اڈیالہ جیل میں قیدیوں پر تشدد کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران وفاقی حکومت کو ایک ہفتے میں انسانی حقوق کی خصوصی عدالت قائم کرنے کا حکم دیدیا۔پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں اڈیالہ جیل میں قیدیوں پر تشدد کے خلاف دائر درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ انسانی حقوق کمیشن نے بہترین رپورٹ پیش کی، عدالت اسے سراہتی ہے، رپورٹ پڑھ کر تو لگتا ہے کہ اڈیالہ جیل حراستی مرکز ہے، رپورٹ دیکھ کر لگتا ہے کہ جیل میں قیدیوں پر تشدد ہو رہا ہے۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ جیل میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہونا خود سے تشدد ہے، گنجائش سے زیادہ قیدی ہونا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔اس دوران چیف جسٹس نے اڈیالہ جیل میں شکایت سیل قائم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اڈیالہ جیل میں کمپلینٹ سیل قائم کریں، یقینی بنائیں کہ معلومات دینے والے قیدیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود پی ٹی آئی رہنما اسد عمر کو روسٹرم پر بلایا اور ان سے مکالمہ کیا کہ عدالت نے 2020 میں فیصلہ آپ کی حکومت کو بھیجا تھا، جو رپورٹس عدالت میں پیش کی گئیں خوفناک ہیں، اسد عمر نے کہا کہ میں رپورٹس لے کر پنجاب کی انتظامیہ سے بات کر لیتا ہوں۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسد عمر سے استفسار کیا کہ کس کو اس سب کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے؟ اسد عمر نے کہا کہ حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو بھی اقتدار میں آتا ہے اسے کمزور طبقے کی پرواہ ہی نہیں ہوتی، صوبے میں اب بھی آپ کی حکومت ہے، اڈیالہ جیل حراستی مرکز ہے، وہاں کالونیل سوچ موجود ہی۔اسد عمر نے کہا کہ میں اس معاملے کو دیکھتا ہوں، 70 سالہ اعظم سواتی کا معاملہ بھی دیکھا جانا چاہیے، چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ایک کر کے سب کو دیکھا جانا ہے، بے آواز لوگوں کی کوئی آواز نہیں بنتا، گزشتہ دنوں میں نے اڈیالہ جیل کا دورہ کیا،آپ کو معلوم ہے میں جیل گیا تو ایک قیدی نے مجھے کیا کہا؟ اس نے کہا کہ آپ چلے جائیں گے تو یہ ہمیں بھگتنا پڑے گا۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ حکومت کی ترجیحات عام لوگوں کے لیے نہیں ہیں