مودی سرکارباز نہ آئی، انتخابات سے قبل اسلامی مدارس پر پابندی عائد

0
107

نئی دہلی (این این آئی)بھارت میں ہونے والے عام انتخابات میں واضح شکست کو دیکھتے ہوئے مودی سرکار اپنے حواس کھو بیٹھی ہے، پہلے اپوزیشن جماعتوں کیخلاف اقدامات اب اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت کھل کر سامنے آچکی ہے۔مودی سرکارانتخابات سیقبل مسلمانوں کی مذہبی آزادی چھیننے کا ایک اور اوچھا حربہ استعمال کررہی ہے جبکہ بھارت میں مسلمانوں کے حقوق کی پامالی اب عام بات بن کررہ گئی ہے۔بھارت میں انتخابات سے قبل مسلمانوں کو ان کے بنیادی مذہبی حقوق سے محروم کرنا،مودی سرکار کی انتخابات میں کامیابی کا ایک مذموم ہتھکنڈا ہیخبررساں ادارے رائٹرزکی رپورٹ کیمطابق انتخابات سے قبل بھارتی ریاست اتر پردیش میں مدارس پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جو مسلمانوں کو عام انتخابات سے قبل وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت سے مزید دورکرسکتا ہے۔رائٹرزکی رپورٹ کیمطابق الہ آباد ہائیکورٹ نے مدارس سے متعلق 2004 کا قانون منسوخ کرتے ہوئے ریاست میں تمام مدرسوں پر پابندی عائد کر دی۔مدارس سے متعلق قانون سے بھارت کے سیکولرازم کے دعوؤں کی قلعی کھل گئی ہے اور ان کی مسلمانوں کیخلاف نفرت بھی عیاں ہو چکی ہے۔بھارت کی ریاست اتر پردیش میں 24 کروڑ عوام میں سے پانچواں حصہ مسلمانوں کا ہونے کے باوجود ان کی مذہبی آزادی چھیننا سراسر ظلم ہے ۔اترپردیش کے مدرسہ تعلیم کے بورڈ کے سربراہ، افتخاراحمد جاوید کا کہنا ہے کہ”بھارتی قانون کے اس اوچھے اقدام سے 25 ہزار مدارس کے 27 لاکھ طلبہ اور 10 ہزار سے زائد اساتذہ متاثر ہوں گے۔رواں برس جنوری میں بھارتی حکومت نے ایک سکیم کا خاتمہ کرتے ہوئے اترپردیش کے مدارس میں ریاضی اور سائنس جیسے مضامین پڑھانے والے اساتذہ کو ادائیگیاں روک دی تھیں جس سے 21 ہزار اساتذہ متاثر ہوئے تھے ۔ہندوتوا نظریے کو پروان چڑھانے والی بی جے پی سرکار شمال مشرقی ریاست آسام میں بھی سیکڑوں مدارس کو روایتی سکولوں میں تبدیل کر رہی ہے ۔بھارتی قانون محض مسلمانوں اور ان کے دینی مدارس کو ہدف بنانے کے لیے بنائے گئے ہیں,بھارت میں مدارس پر پابندی سے مودی کی ہندوتوا ذہنیت کھل کر سامنے آ گئی ۔بھارتی حکومت کی جانب سے مدارس کو بند کرنا نہ صرف بھارتی بلکہ عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے ۔امریکا، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے حوالے سے تنظیموں کو بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک پر خاموشی توڑ کر اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔