واشنگٹن (این این آئی)امریکہ نےسابق وزیر اعظم عمران خان کی برطرفی میں واشنگٹن کے ملوث ہونے کے ان کے الزامات کی ایک بار پھر تردید کی۔ امریکہ نے کہا کہ وہ غلط معلومات اور جھوٹ کو پاکستان کے ساتھ باہمی تعلقات کی راہ میں حائل ہونے نہیں دے گا۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کی معمول کی پریس بریفنگ میں بدھ کے روز جب پاکستان کے ایک نیوز چینل کے نامہ نگار نے ان سے سوال کیا کہ چونکہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان اب بھی اپنی حکومت کے خاتمے کا الزام امریکہ پر لگا رہے ہیں اور امریکہ مخالف مہم جاری رکھے ہوئے ہیں تو کیا ان کی اس مہم سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر کوئی فرق پڑے گا؟نیڈ پرائس نے اس کے جواب میں کہا،ہم کسی پروپیگنڈہ، غلط اطلاعات یا افواہوں او رجھوٹ کو باہمی تعلقات کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیں گے۔ ہم پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔خیال رہے کہ امریکی محکمہ خارجہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے کہ امریکہ پاکستان میں کسی سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کرتا بلکہ وہ صرف قانون کی حکمرانی کے اصولوں کی تائید کرتا ہے۔سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنی برطرفی کے بعد ایک خط دکھا کر عوام کے سامنے دعویٰ کیاتھا کہ یہ دھمکی آمیز خط انہیں امریکہ کی جانب سے موصول ہوا ہے جس میں ان کی حکومت کو ختم کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ خط پاکستان کی خود مختاری پر حملہ تھا۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان سے جب یہ پوچھا گیا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے نیویارک میں 18مئی کو مجوزہ فوڈ سکیورٹی کانفرنس میں شرکت کرنے والے پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن میں ملاقات ہوگی تو نیڈ پرائس کا کہنا تھا، فی الحال کسی دو طرفہ ملاقات کی تفصیل ان کے پاس نہیں ہے۔نیڈ پرائس نے تاہم کہا کہ وہ یہ کہنا چاہیں گے کہ سکریٹری بلنکن اور پاکستان کے ان کے ہم منصب بلاول بھٹو زرداری کے درمیان گزشتہ ہفتے بات ہوئی ہے اور دونوں رہنماوں نے امریکہ اور پاکستان کے درمیان باہمی تعلقات کے 75برس مکمل ہونے پر وسیع بنیاد پر باہمی تعلقات کو مزید بہتر بنانے اور آگے لے جانے کے بارے میں گفتگو کی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ سکریٹری بلنکن نے افغانستان میں استحکام او ردہشت گردی سے نمٹنے کے لیے امریکہ اور پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ انہوں نے معاشی تعلقات، تجارت، سرمایہ کاری، ماحولیات، توانائی، صحت او رتعلیم جیسے موضوعات پر بھی تبادلہ خیال کیا