پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت پر بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کر دیا

0
180

اسلام آباد (این این آئی)پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق درخواستوں پر بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کر تے ہوئے واضح کیاہے کہ مقبوضہ کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ایک متنازع علاقہ ہے،بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں ،بھارتی قانونی ماہرین بھی مان رہے ہیں کہ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، بدقسمتی سے بھارتی عدلیہ اندھی عدلیہ بن گئی ہے، 5 اگست 2019 کے بھارتی غیر قانونی اقدامات کی عدالتی توثیق انصاف کے ساتھ مذاق ہے، بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے عالمی برادری کی توجہ نہیں ہٹا سکتا،بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں ،پاکستان تمام اسٹیک ہولڈرز کا جلد اجلاس بلائے گا، اجلاس میں مستقبل کی حکمت عملی طے کی جائے گی۔ پیر کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جلیل عباس جیلانی نے کہاکہ بھارت نے بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں، پاکستان کشمیریوں کے حق خودارادیت کی بھرپور حمایت کرتا رہے گا۔انہوں نے کہا کہ ریاستی حیثیت کی بحالی، ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد یا اسی طرح کے اقدامات کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی فراہمی کے متبادل کے طور پر کام نہیں کر سکتے، یہ فیصلہ انسانی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزی سے بین الاقوامی برادری کی توجہ نہیں ہٹا سکتا۔جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ 5 اگست 2019 سے جاری بھارت کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدام کا مقصد آبادیاتی ڈھانچے اور مقبوضہ جموں وکشمیر کے مخصوص منظر نامے کو تبدیل کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی قانون اور متعلقہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں بالخصوص 1957 کی 122 کی کھلم کھلا خلاف ورزی پاکستان کے لیے سنگین تشویش کا باعث ہے کیونکہ اس کا حتمی مقصد کشمیریوں کو ان کی اپنی سرزمین پر ایک بے اختیار کمیونٹی میں تبدیل کرنا ہے۔جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ امن اور بات چیت کا ماحول بنانے کے لیے ان اقدامات کو واپس لینا چاہیے،پاکستان جموں و کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کے حصول کے لیے اپنی بھرپور سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا.انہوں نے بتایا کہ ہم جلد ہی تمام اسٹیک ہولڈرز کا اجلاس بلائیں گے اور آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کریں گے،جموں و کشمیر عالمی سطح پر ایک تنازعہ ہے ،جموں کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرادادیں موجود ہیں،بھارت کو کسی قسم کے یکطرفہ اقدامات کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔نگران وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں ہے،کشمیری عوام بھارتی یکطرفہ اقدامات کو پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں،بھارتی اقدامات عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں،بھارتی اقدامات کشمیریوں کی نسل کشی اور ان کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔جلیل عباس جیلانی نے بتایا کہ اس معاملے پر سیکورٹی کونسل، او آئی سی اور یورپی پارلیمنٹ کو خطوط لکھیں گے،پاکستان یہ معاملہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے سامنے اٹھائے گا،پاکستان بھارت کے یکطرفہ اقدامات پہلے ہی دنیا کے سامنے رکھ چکا ہے،اقوام متحدہ ، یورپی یونین اور او آئی سی سمیت تمام عالمی فورمز 5 اگست کے بھارتی اقدامات سے آگاہ ہیں۔انہوںنے کہاکہ مسئلہ کشمیر طویل عرصے سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر حل طلب مسئلہ ہے، اس کے حل کے لئے اقوام متحدہ کی قراراداوں پر عمل کرنا ہوگا،پاکستان بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہر آپشن زیر غور لائے گا۔انہوں نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کا فیصلہ بھی جانبداری سے دیا اور آج کا فیصلہ بھی اسی نوعیت کا ہے،بھارتی عدلیہ بدقسمتی سے اندھی ہوچکی ہے،5 اگست 2019 سے آج تک کشمیری عوام پابندیوں کا شکار ہیں،کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جاری ہیں،کشمیر میں ظلم و بربریت کی ایک نئی داستان قائم کی گئی،بھارت نے مبصر مشن کو بھی مقبوضہ کشمیر آنے کی اجازت نہیں دی۔انہوں نے بتایا کہ بھارتی قانونی ماہرین بھی سپریم کورٹ فیصلوں میں تضادات کی نشاندہی کررہے ہیں،بھارت کاکشمیرپرکیس بہت کمزور ہے،بھارت نے مختلف ممالک میں دہشت گردی اور قتل کا جوجال بنایا اس سے اس کی ساکھ گرگئی ہے۔نگران وزیر خارجہ نے کہاکہ پاکستان کی کوشش ہے لائن آف کنٹرول پر امن رہے،گزشتہ دو تین سال سے لائن آف کنٹرول پر امن ہے،امن نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا کیلئے اہم ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ سے اپنی ہی قرارداوں پر عملدرآمد کروانے کا مطالبہ کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ 2018 میں اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق نے جو رپورٹ دی تھی اس میں انہوں نے واضح طور پر یہ مطالبہ کیا تھا کہ ایک کمیشن آف انکوائری بننا چاہیے تاکہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا تعین کیا جاسکے لیکن اس رپورٹ کے اوپر بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔جلیل عباسی جیلانی نے کہاکہ اس وقت پاکستان کے بھارت سے کوئی مذاکرات نہیں چل رہے،کشمیریوں کواحساس ہے پاکستان ان کے موقف کے ساتھ کھڑاہے۔واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کی منسوخی اور اسے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے 5 اگست 2019 کے متنازع فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو مسترد کر دیا اور الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ ستمبر 2024 تک مقبوضہ جموں و کشمیر میں انتخابات کرائے