زراعت اور کنسٹرکشن پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائیگا، وزیر خزانہ

0
179

اسلام آباد (این این آئی)وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی دستاویزات قومی اسمبلی میں پیش کر تے ہوئے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت زراعت اور ریئل اسٹیٹ پر کسی بھی قسم کے نئے ٹیکس کی تردید کر دی اور واضح کیا ہے کہ زراعت اور کنسٹرکشن پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائیگا۔جمعہ کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ایوان کو بتایا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر بطور وزیر خزانہ میں اور گورنر اسٹیٹ بینک اس پر دستخط کریں گے اور اس کی کاپی اس ہاؤس کو فراہم کریں گے، یہ کام شفافیت کے لیے ضروری ہے، اس طرح کی جو بھی پیش رفت ہو اس سے اس ایوان کے معزز اراکین کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔انہوںنے کہاکہ ماضی میں بھی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے ہوئے، 1999 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد 8 ماہ آئی ایم ایف کا پروگرام معطل ہونے کے بعد بحال ہوا تو اس کی تفصیلات ویب سائٹ پر ڈال دی تھیں۔انہوں نے لیٹر آف انٹینٹ، میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانسل پالیسیز اور ٹیکنیکل میمورنڈم آف انڈر اسٹینڈنگ کی کاپیاں لائبریری میں رکھنے کے لیے پیش کیں تاکہ کوئی بھی اس کو دیکھ سکے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ نواں جائزہ نومبر 2022 میں ہونا تھا جبکہ دسواں جائزہ فروری 2023 اور گیارہواں جائزہ مئی 2023 میں ہونا تھا، ان تینوں کی مالیت 2.5 ارب ڈالر تھی، یہ پروگرام 2019 میں شروع ہوا تھا، 2022 میں یہ ختم ہو جانا چاہیے تھا تاہم پروگرام معطل ہوئے، گزشتہ حکومت کے معاہدے سے انحراف کی وجہ سے اس میں وقت لگا۔انہوں نے کہا کہ بجٹ کے دنوں میں اس حوالے سے سوال بھی پوچھے گئے، ہماری اس حوالے سے تیاریاں مکمل تھیں، ہم نے کوششیں کیں کہ دسویں اور گیارہویں جائزے کے 1.4 ارب ڈالر لیپس ہونے سے بچ جائیں، ہم نے اس کا سائز ڈھائی ارب ڈالر کے بجائے ساڑھے 3 ارب ڈالر تک لے جانے کی کوشش کی، 3 ارب ڈالر پر ہماری مفاہمت ہو گئی جس کی مدت 9 ماہ رکھی گئی ہے، تاکہ نئی حکومت کے آنے تک یہ پروگرام ختم ہو چکا ہو اور حکومت اقتدار سنبھالنے کے بعد ملکی مفاد میں اقدامات اٹھائے۔اسحق ڈار نے بتایا کہ 215 ارب کے مالیاتی اقدامات اٹھائے، ہم نے اپنے اخراجات کم کیے، اس کے نتیجے میں بجٹ کی منظوری کے بعد اسٹاف لیول معاہدہ ہوا، 30 جون کو اسٹاف لیول معاہدے کے بعد 12 جولائی تک متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے وعدے کے مطابق ہمیں امداد فراہم کی، 12 جولائی کو بورڈ کی سطح پر معاہدے کی منظوری ہوئی جس کے بعد ایک ارب 19 کروڑ ڈالر پاکستان کو موصول ہوگئے، اس سے غیر ملکی زرمبادلہ کے ہمارے ذخائر کی مینجمنٹ میں مدد ملی۔انہوںنے کہاکہ نئی حکومت کے آنے پر اسٹیٹ بینک کے پاس 9.6 ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں کے پاس 5 ارب ڈالر تھے، ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر کے قریب تھے، ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ تمام ساورن ادائیگیاں وقت پر کرنی ہیں اور اس پر کوئی تاخیر یا ڈیفالٹ نہیں کرنا، اس وجہ سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر ایک وقت میں 8 ارب ڈالر تک آ گئے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ہم اپنے ذخائر اسی سطح پر چھوڑ کر جائیں جتنے آتے وقت تھے، ہم نے بروقت ادائیگیاں بھی کیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ایسی پالیسی ہو کہ آنے والے وقتوں میں مہنگائی کا طوفان تھمے، اسٹیٹ بینک نے کہاکہ دو سال میں افراط زر کی شرح 7 فیصد تک آ جائے گی، یہ ملک کے لیے ایک اچھی خبر ہے، ہمیں سیاست کو ایک طرف رکھ کر میثاق معیشت کرنا چاہیے