عدلیہ کی تاریخ کا ایک عہد تمام، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریٹائر ہوگئے

0
22

اسلام آباد (این این آئی)عدلیہ کی تاریخ کا اک عہد تمام ،چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ ریٹائرہوگئے ۔چیف جسٹس کے اعزاز میں سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کونسل کی جانب سے عشائیہ دیا گیا جس میں نامزد چیف جسٹس جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس مسرت ہلالی شریک ہوئیں۔عشائیہ میں جسٹس نعیم افغان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس امین الدین خان، جسٹس عقیل عباسی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد بلال حسن ،جسٹس عرفان سعادت خان بھی شریک تھے۔جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید عشائیہ میں شریک نہیں ہوئے جبکہ جسٹس منصور علی شاہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب میں ہیں۔تقریب میں تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان، ججز ، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین فاروق ایچ نائیک، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شہزاد شوکت، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے علاوہ سینئر وکلا نے بھی شرکت کی۔یاد رہے کہ قاضی فائز عیسیٰ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھی قاضی محمد عیسیٰ کے بیٹے ہیں، قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے والد کی طرح برطانیہ کے قدیم ترین تعلیمی ادارے مڈل ٹیمپل سے بار ایٹ لا کی سند حاصل کی۔قاضی فائز عیسیٰ کوعدلیہ بحالی وکلا تحریک کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں 2009 میں براہ راست بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا گیا۔قاضی فائز عیسیٰ 5 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ کے جج بنے، وہ فوجی عدالتوں کے قیام کی آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کا اقلیتی فیصلہ دینے والے ججوں میں شامل تھے۔قاضی فائز عیسیٰ میمو کمیشن کے سربراہ بھی رہے اور اس وقت کے صدر آصف زرداری کو قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے الزامات سے بری کیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جب فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ دیا تو اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت نے ان کے خلاف صدارتی ریفرنس دائرکیا، سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ نے کثرت رائے سے یہ ریفرنس کالعدم قراردیا۔بطور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے4 سال سے نہ ہونے والی فل کورٹ میٹنگ بلائی، 9 سال بعد سپریم کورٹ کا فل کورٹ تشکیل دیا جس نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی توثیق کی، اس قانون کے تحت بینچوں کی تشکیل اور مقدمات مقرر کرنے کا چیف جسٹس کا صوابدیدی اختیار 3 رکنی ججز کمیٹی کو سونپ دیا گیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں شفافیت کیلئے عوامی مفاد کے مقدمات کی براہ راست نشریات جیسا اہم فیصلہ کیا۔قاضی فائز عیسیٰ نے جنرل پرویز مشرف کی سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا، سپریم کورٹ پر ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا لگا دھبہ صاف کیا اور اس فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا۔قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں عوامی نمائندوں کی 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیا گیا، ارکان پارلیمنٹ سے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے نام پر ووٹ کا حق چھیننے سے متعلق آئین ری رائٹ کرنے کا فیصلہ بھی کالعدم قراردیا۔قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دور میں معطل شریعت اپیلٹ بینچ بحال کیا اور 21 سال سے زیر التوا مقدمات کے فیصلے دیے، خواتین کو وراثت میں حق دینے کا اہم ترین فیصلہ دیا، ڈیم فنڈ اور 190 ملین ڈالر کیس میں سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع تقریبا 90 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرانے کے فیصلے دیے۔عدلیہ میں احتساب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جج مظاہر نقوی کے خلاف کرپشن الزامات پر جوڈیشل کونسل کے ذریعے تادیبی کارروائی کی، شوکت عزیزصدیقی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ کالعدم کیا اور عدلیہ میں مداخلت کا ازخود نوٹس لیا۔پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف فیصلے کے بعد انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا، ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی اور ان کے خلاف ایکسٹینشن کا پروپیگنڈہ کیا گیا۔قاضی فائز عیسیٰ وہ پہلے جج تھے جنہوں نے اپنے اور اپنی اہلیہ کے اثاثے رضاکارانہ طور پر سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر ڈالے، حکومت سے نہ تو کوئی پلاٹ لیا، نہ گاڑی اور نہ کوئی پروٹوکول ہی لیا۔بطور چیف جسٹس پیدل بھی سپریم کورٹ آتے رہے، انہوں نے زیارت میں اپنی آبائی زمین قائد ریزیڈینسی اور بلوچستان حکومت کو عطیہ کر دی