پریکٹس اینڈ پروسیجر بل، نظرثانی قانون پر باہمی تضاد سے بچنے کیلئے دوبارہ جائزہ لیا جائے گا، اٹارنی جنرل

0
150

اسلام آباد (این این آئی)چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات میں کمی کے حوالے سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے خلاف دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل اور نظرثانی قانون میں کچھ شقیں ایک جیسی ہیں، دونوں قوانین کو باہمی تضاد سے بچانے کے لیے دوبارہ جائزہ لیا جائے گا جبکہ خوشی ہے کہ پارلیمنٹ اور حکومت مماثلت والے قوانین میں ترمیم کر رہی ہے، حکومت کو عدلیہ کی قانون سازی سے متعلق سپریم کورٹ سے مشاورت کرنی چاہیے۔ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل سپریم کورٹ کے 8 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کیا کہنا چاہتے ہیں، آپ نے کچھ کہنا تھا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ قانون کئی اور امور کو بھی ڈیل کرتا ہے، ہمارے 2قوانین ہیں، ایک سپریم کورٹ ریویو آف آرڈر اینڈ ججمنٹ ایکٹ ہے، دوسرا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ہے، دونوں قوانین میں ریویو اور وکیل کرنے کی شقوں کی آپس میں مماثلت ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل اور نظرثانی قانون دونوں میں کچھ شقیں ایک جیسی ہیں، دونوں قوانین کو باہمی تضاد سے بچانے کے لیے دوبارہ جائزہ لیا جائے گا، سپریم کورٹ کے انتظامی معاملے پر قانون سازی عدلیہ کے مشورے سے نہیں ہوئی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خوشی ہے کہ پارلیمنٹ اور حکومت مماثلت والے قوانین میں ترمیم کر رہی ہے، حکومت کو عدلیہ کی قانون سازی سے متعلق سپریم کورٹ سے مشاورت کرنی چاہیے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ زیادہ وسیع ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات سے متعلق شقیں ہیں، دونوں قوانین میں سے کس پر انحصار کرنا ہے اس کے لیے ایک حل پر پہنچنا ضروری ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ دونوں قوانین میں ہم آہنگی کے لیے پارلیمنٹ کو دیکھنے کا کہہ سکتے ہیں، پارلیمنٹ کو معاملہ بھیجنے سے لگے گا اس پر فیصلہ کر دیا ہے، آپ کی اس تجویز کا خیر مقدم کرتے ہیں، متضاد قانون سازی پر قوانین لے کر آئیں، آپ حکومت سے ہدایات لے لیں تب تک کسی اور کو سن لیتے ہیں۔اس دوران درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ روسٹرم پر آگئے۔انہوں نے کہا کہ عدالت نے پارلیمنٹ کی کارروائی طلب کی تھی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جی ہم نے ریکارڈ مانگا تھا تاہم اخبارات کے مطابق پارلیمنٹ نے کارروائی عدالت کو فراہم کرنے سے انکار کردیا، پارلیمنٹ کو شاید معلوم نہیں تھا کہ تمام کارروائی ویب سائٹ پر موجود ہے، ہم نے پارلیمان کی ویب سائٹ سے ریکارڈ لے لیا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آئندہ ہفتے اس کیس کو سنیں گے، تمام وکلا جو کراچی سے لمبا سفر کر کے آئے ان سے معذرت کرتے ہیں، تمام وکلا یہیں ہیں لیکن ان کو دیکھ کر اپنا جملہ نہیں دہراوں گا، آج کی سماعت کا آرڈر بعد میں جاری کریں گے۔بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔دریں اثنا مسلم لیگ (ق)نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کرواتے ہوئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کو مسترد کرنے کی استدعا کردی۔جواب میں مسلم لیگ (ق)کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی میں کمی نہیں اضافہ ہوگا، ملک میں چلنے والی وکلا تحریک کے بعد ریفارمز کے موقع کو گنوا دیا گیا، ایکٹ کا سیکشن 4 سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو وسیع کرتا ہے، ایکٹ کا سیکشن 3 عدلیہ کے 184 (3) کے اختیار کے استعمال کو کم نہیں کرتا۔مسلم لیگ (ق)کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ سیکشن 3 چیف جسٹس کیاز خود نوٹس کے اختیار کے بے ترتیب استعمال کو سینئر ججز کے ساتھ مل کر استعمال کا کہتا ہے، کمیٹی کے جانب سے مقدمات کے مقرر کرنا ازخود نوٹس کے اختیارات کے استعمال سے عوام کا اعتماد بڑھے گا۔جواب میں کہا گیا کہ سابقہ چیف جسٹسز افتخار چوہدری، گلزار احمد، ثاقب نثار کی جانب اختیارات کا متحرک استعمال کیا گیا، چیف جسٹس کے اختیارات کے استعمال کے نتائج اسٹیل مل، پی کے ایل آئی اور نسلہ ٹاور کی صورت میں سامنے آئے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ جیسی قانون سازی سے ایسے نتائج سے بچا جاسکتا تھا، آزاد عدلیہ کا مطلب ہر جج کے بغیر پابندی، دباو اور مداخلت کے فرائض کی انجام دہیس ہے۔قبل ازیں گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس میں اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرواتے ہوئے مذکورہ قانون کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی