تین شخص ملک کی قسمت کا فیصلہ نہیں کرسکتے، حکمران اتحاد کا فل کورٹ بنانے کا مطالبہ

0
225

اسلام آباد (این این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن)کی نائب صدر مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ پارٹی سربراہ دیکھ کر آئین کی تشریح اورعدالتوں کے فیصلے بدل جاتے ہیں،آئین شکنی کیس میں صدر مملکت اور قاسم سوری ملوث ہیں ، انہیں عدالت میں طلب نہیں کیا جاتا ،وزیراعظم شہباز شریف اکثر عدالتوں میں دیکھے جاتے ہیں،ادارے کی توہین ادارے کے اندر سے ہوتی ہے ،جس طرح میچ فکسنگ ایک جرم ہے اسی طرح بینچ فکسنگ بھی ایک جرم ہے اس پربھی از خود نوٹس ہونا چاہیے،انصاف کا ترازو کو ٹھیک کرلیں، جب انصاف کا ترازو ٹھیک ہوگا تو پاکستان بھی خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔ پیر کو یہاں اتحادی جماعتوں کے قائدین مولانا فضل الرحمن ، بلاول بھٹو زر داری ،ہاشم نوتزئی، ایمل خان، طارق بشیر چیمہ، خالد مگسی ،اسلم بھوتانی، اسامہ قادری، خالد مقبول صدیقی (زوم) شاہ زین بگٹی، محسن داوڑو دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہاکہ چرچل نے جنگ عظیم دوم کے دوران کہا تھا اگر ہماری عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں تو ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔مریم نواز نے کہا کہ خلفائے راشدین کا قوم ہے کہ کفر کی بنیاد پر ریاست کا نظام چل سکتا ہے لیکن ظلم کی بنیاد پر کوئی نظام نہیں چل سکتا۔مریم نواز نے کہا کہ پریس کانفرنس کیلئے آرہی تھی تو بہت سے لوگوں کے پیغامات آئے کہ آپ کی اپیل زیر التوا ہے آپ پریس کانفرنس نہ کریں۔انہوں نے کہا کہ کچھ حقائق قوم کے سامنے رکھنا چاہتی ہوں، 75 سال تاریخ میں نہیں جانا چاہتی، حالیہ چند برسوں کے کچھ واقعات کا حوالہ دینا چاہتی ہوں جن کی تفصیلات دیکھ کر رونگٹے کھڑے کردینی والی ایک داستان سامنے آتی ہے۔انہوںنے کہاکہ کسی سے بھی غلط فیصلہ ہوسکتا ہے لیکن تسلسل کے ساتھ غلط فیصلے ہونا، فیصلے بانچھ نہیں ہوتے، ان کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں، کچھ فیصلوں کے اثرات وقت گزرنے کے ساتھ کم نہیں ہوتے بلکہ آنے والی دہائیوں میں ان کے اثرات مزید گہرے ہوتے جاتے ہیں۔مریم نواز نے کہا کہ کسی بھی ادارے کی توہین کبھی بھی اس کے باہر سے نہیں ہوتی، ادارے کی توہین ادارے کے اندر سے ہوتی ہے، عدلیہ کی توہین کوئی شخص نہیں، اس کے متنازع فیصلوں سے ہوتی ہے۔انہوںنے کہاکہ میں یہاں عدلیہ کی تعریف و توصیف میں لمبا چوڑا مضمون لکھ سکتی ہوں تاہم صرف ایک غلط فیصلہ اس پورے مقدمے کو اڑا کر رکھ دے گا اور اسی طرح اگر فیصلہ عدل و انصاف پر مبنی ہو تو اس پر کتنی بھی تنقید کی جائے، وہ تنقید کوئی معنی نہیں رکھتی