شوکت صدیقی برطرفی کیس،سپریم کورٹ نے فیض حمید سمیت دیگر کو فریق بنانے کیلئے (کل) تک کیلئے مہلت دیدی

0
218

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی اپنی برطرفی کے خلاف درخواست میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید سمیت دیگر کو فریق بنانے کیلئے (کل )جمعہ تک مہلت دیدی ۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عرفان سعادت شامل ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ کی تبدیلی پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کی بات ہے آج کل ہر کوئی فون اٹھا کر صحافی بنا ہوا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی روشنی میں یہ بینچ تشکیل دیا، پہلے اس بینچ میں کون کون سے ججز تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم اس بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہتے، باقی ججز ریٹائرڈ ہو چکے ہیں، میں نے بینچ سے کسی کو نہیں ہٹایا، بینچوں کی تشکیل اتفاق رائے یا جمہوری انداز میں ہو رہی ہے، موبائل ہاتھ میں اٹھا کر ہر کوئی صحافی نہیں بن جاتا، صحافی کا بڑا رتبہ ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آج کل جمہوریت کا زمانہ ہے، اس وقت جمہوریت مشکل حالات میں ہے، آپ کی معاونت درکار رہے گی، جمہوریت چلتی رہے گی، آپ نے اسے آگے لے کر چلنا ہے۔حامد خان نے کہا کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس سنا، بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود ،جسٹس اعجاز الاحسن ، جسٹس مظہر عالم میاں اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل تھے۔چیف جسٹس نے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ کو اس بنچ کے کسی رکن پر اعتراض تو نہیں ہے؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ نہیں اس بینچ کے کسی رکن پر اعتراض نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آج کل ویسے بھی اعتراض کا زمانہ ہے۔چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ملک جمہوریت کی طرف گامزن ہے تو سپریم کورٹ میں بھی جمہوریت آرہی ہے، کیا شوکت عزیز صدیقی کی تقریر تحریری تھی؟ حامد خان نے جواب دیا کہ شوکت عزیز صدیقی نے بغیر لکھی تقریر کی تھی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی کو مرضی کا فیصلہ کرنے کا کس نے کہا تھا؟ حامد خان نے کہا کہ جنرل فیض حمید ایک برگیڈیئر کے ساتھ شوکت عزیز صدیقی کے گھر گئے تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جس شخص پر الزام لگا رہے ہیں انہیں فریق کیوں نہیں بنایا گیا؟ حامد خان نے کہا کہ شخصیات ادارے کی نمائندگی کر رہی تھیں اس لیے فریق نہیں بنایا، فیض حمید کو بطور گواہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بلانا تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ یا کسی پر الزام نہ لگائیں یا پھر جن پر الزام لگا رہے انہیں فریق بنائیں۔دوران سماعت ایڈووکیٹ حامد خان نے شوکت عزیز صدیقی کی راولپنڈی بار میں کی گئی تقریر کا متن پڑھا، چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کون تھے، حامد خان نے کہا کہ اس وقت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور کانسی تھے، شوکت عزیز صدیقی پر 4 ریفرنسز بنائے گئے، ایک ریفرنس یہ بنایا کہ سرکاری رہائیش گاہ پر شوکت عزیز صدیقی نے زائد اخراجات کیے۔حامد خان نے کہا کہ ہم نے کونسل میں درخواست دی کہ ججز کی سرکاری رہائش گاہوں پر ہونے ولے اخراجات کی مکمل تفصیل دیں، کونسل نے جواب دیا جو مانگ رہے ہیں وہ غیر متعلقہ ہے، ایک ریفرنس 2017 کے دھرنے کی بنیاد پر بنایا گیا، جس میں شوکت عزیز صدیقی نے بطور جج اسلام آباد ہائیکورٹ ریمارکس دئیے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں عدالتی ریمارکس پر ریفرنس بنایا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ شوکت صدیقی کے خلاف شکایات کنندگان کون تھے، حامد خان نے کہا کہ رہائش گاہ پر زائد اخراجات کے شکائت کنندہ سی ڈی اے ملازم انور گوپانگ تھے، ایک ریفرنس ایڈووکیٹ کلثوم اور ایک سابق ایم این اے جمشید دستی نے بھیجا۔جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جمشید دستی کس سیاسی جماعت کا حصہ تھے؟ حامد خان نے کہا کہ مجھے کنفرم نہیں لیکن شائد آزاد حیثیت میں ہوں گے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یعنی آپ کہ رہے ہیں جمشید دستی مکمل آزاد نہیں تھے